ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہم کہاں کھڑے ہیں؟
جمہور کی آواز
یم سرور صدیقی
یہ بات غیر کریں تو ہمیں بہت برا لگتا ہے، بیشتر ہم وطنوںکا خیال ہے کہ پاکستان میں جب بھی قدرتی آفات آتی ہیں افسروں، وزیر وں، مشیروں اور کرپٹ افسروں کی لاٹری نکل آتی ہے۔ سیلاب، زلزلہ اور لینڈ سلائیڈنگ کے متاثرین کی بحالی کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کرلئے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے ہی ہوا، آزاد کشمیر میں زلزلہ متاثرین آج بھی متاثرین ہی ہیں۔ سیلاب سے آفت زدہ علاقوں، خصوصاً جنوبی پنجاب میں لوگ آج بھی حکومتوں کو کوستے پھرتے ہیں جن کی عمر بھر کی کمائی قدرتی آفات کی نذرہو جائے اس کا غم وہی جانتے ہیں، ملک بھر میں قیامت خیز بارشوں، تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلائوڈ برسٹ نے تباہی مچا رکھی ہے اور حکمران غیر ممالک کے سیر سپاٹے پر ہیں۔ عوام کو ریلیف دینا ہو یا متاثرین کی بحالی یا امداد کا معاملہ ہو یا پھر غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں، اس کے پس منظر میں یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ ہمارا طرزِ عمل کیسا ہے ؟ دوسروں کا اس بارے میں نقطہ نظر کیا ہے؟ داخلی اور خارجی مسائل کیا ہیں؟ ہماری حکومتوں کے پاس اس کا سلوشن کیا ہے؟ یا کیا ہونا چاہیے۔ عوام کی اکثریت کو اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے حکمران صرف اپنے متعلق ہی سوچتے ہیں، عوام ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں، ہمارا طرز ِ عمل ہی ایک ایسی کسوٹی ہے جسے پرکھ کر دوسرے ہمارے متعلق اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس، ہمارے حکمران اس میں قطعی طور پر فیل ہو چکے ہیں۔ اسی بناء پر ہم دنیا بھر میں تماشہ بنے ہوئے ہیں، لیکن حکمرانوں بشمول بیوروکریسی پر مشتمل ہماری اشرافیہ کو اس کا مطلق احساس تک نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا معاشی ایجنڈا کیا ہے، شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔
کیا معاشی ایجنڈے، موثر حکمت ِ عملی کے بغیر قومیں ایسے ہی اوپر اٹھ سکتی ہیں، اس کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی، زبردست حکمت ِ عملی اور ویژن ہونا لازمی ہے، اب ہم لاکھ دنیا بھر میںڈھنڈورا پیٹتے پھریں کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لئی حالات سازگار ہیں، ان کے لئے ترقی کے زبردست مواقع ہیں یا پھرا س کے لئے ترغیبات کے روزانہ نت نئے پیکیجز کے اعلان کریں، کسی کو اعتبار نہیں آئے گا۔۔ کیوں؟، اس کا جواب بڑا آسان اور سادہ سا ہے، جب ہمارے اپنے ملک کے درجنوں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں نے بھاری بھرکم انویسٹمنٹ بہت سے غیر ممالک میں کر رکھی ہے توہم یقین کون کرے گا؟ ان لوگوں میں ہماری سیکڑوں اہم شخصیات شامل ہیں، جب یہ لوگ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لئے ترغیبات کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں تو یقینا دنیا دل ہی دل میں ہنس رہی ہوتی ہے، یہ کیسے بیوقوف ہمیں الو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں بھی شاید کوئی مبالغہ نہ ہو کوئی منہ پر نہ سہی دل میں میں ضرور یہ بھی کہہ رہا ہوگا شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ بیشتر پاکستانیوں کو یقین ہے کہ اس اشرافیہ کو شرم نہیں آتی۔ جس نے عام آدمی کے لئے غربت کو بدنصیبی بنا کر رکھ دیا اور اپنے لئے دولت کے پہاڑ اکٹھے کرلئے، پھر بھی ان کا جی نہیں بھرتا۔ سیلاب، زلزلہ اور لینڈ سلائیڈنگ کے متاثرین کی بحالی کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر لئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ آخر کتنی دیر تک چلے گا آخر اس کا انت کیا ہوگا؟ کوئی جانتا ہے۔ پاکستان کے انہی حالات کے تناظر میں ایک مرتبہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جو کچھ کہا تھا وہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ انکار محال ہے، ان کی باتیں بڑی پرفیکٹ ہیں، ایک مرتبہ پوتن نے کہا تھا کہ پاکستان، پاکستانیوں کے لئے قبرستان ہے، پوتن کا کہنا تھا کیا اشرافیہ پاکستان کو فقط قبرستان سمجھتی ہے، وہ تو پاکستان میں اپنا علاج کرانا گوارا نہیں کرتے۔
سوچیں تو اگر ہماری یہی حالت جاری رہی تو پھر یقین ہے کہ
لائیں گے غسال کابل سے اور کفن جاپان سے
ان خیالات کا اظہار کوئی نیک شگون نہیں ہے، بلکہ ہماری قومی المیہ ہے لیکن ہمیں مطلق اس کا احساس نہیں اس لئے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ہم کیا سے کیا ہوگئے۔
یقینا پوتن کا بیان سچ ہی ثابت ہوا، حالات و واقعات اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں، کمال ہے ۔
حکمرانوں ان اتنی توفیق بھی نہیں کہ وہ یہاں ایسے ہسپتال بھی نہیں بنوا سکے جہاں ان کا اپنا علاج ہو سکتا، اسی لئے تین، تین چار، چار مرتبہ وزیر ِ اعظم اور صدر کے عہدوں پر فائز رہنے والوں نے اس ملک کے لئے کچھ نہیں سوچا، عوام کے حصے میں غربت، بیماری اور مہنگائی ہی آتی ہے۔
اب آتے ہیں معروف اداکارہ انجلینا جولی کی طرف جس نے پاکستانی رہنمائوں کے بارے میں شرمناک خیالات کا اظہار کرکے دنیا کو چونکا دیا تھا لیکن ہم نے اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ستمبر 2010ء کو اقوامِ متحدہ کی سفیر کا دورہ تھا ہالی ووڈ کی صف اوّل کی اداکارہ اور اقوامِ متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے جب پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امریکہ واپسی پر اقوام متحدہ کے لئے ایک خصوصی رپورٹ بھی لکھی، جس میں انہوں نے ایک طرف متاثرین کی صورتحال کو انتہائی دردناک انداز میں پیش کیا اور دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں اور ان کے شاہانہ طرز عمل کو دیکھ کر صدمے میں آ گئیں۔ انجلینا جولی جنہوں نے پاکستان میں فوٹو سیشن اور میڈیا میں آنے سے گریز کیا، اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اعلیٰ حکام اور بااثر شخصیات ان سے ملنے کے لئے قطاروں میں کھڑے ہو کر متاثرین کو پیچھے دھکیلتی رہیں۔ ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملے۔ انہیں یہ دیکھ کر نہایت تکلیف ہوئی جب وزیراعظم نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ ان کے اہل خانہ ہالی ووڈ کی نمبر ون اداکارہ سے ملنے کے لئے بے چین ہیں۔ ان کی فیملی مجھ سے ملنے کے لئے ان کے آبائی شہر ملتان سے خصوصی طور پر ایک طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچی اور مجھے بیش قیمت تحائف دئیے۔ وزیراعظم اور ان کی فیملی نے مجھے انواع و اقسام کے کھانے کی دعوت بھی دی۔ انجلینا جولی لکھتی ہیں کہ میرے لئے وہ انتہائی افسوس اور دکھ کا موقع تھا جب میز پر طرح طرح کے کھانوں کی بھرمار تھی۔ وہ کھانے ان سیکڑوں لوگوں کے لئے کافی تھے جو محض ایک آٹے کے تھیلے اور پانی کی چھوٹی سی بوتل کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے کر اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک طرف ملک میں بھوک اور افلاس ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم ہائوس اور کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور سج دھج دیکھ کر حکمرانوں کی عیاشی مغرب کو بھی حیران کر دینے کے لئے کافی ہے۔ انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ اقوامِ عالم سے امداد مانگنے سے پہلے عیاشیاں ختم اور اخراجات کم کرے۔
چلتے چلتے ایک اور بات۔۔۔ ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں انویسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتا ہے،6کروڑ پاکستانیوں کیلئے روزگار+ ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ یہ کچھ بتانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے دلوں سے احساس ِ زیاں جاتا رہاہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسل بھگتے گئی، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا خود سے سوال کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔





