Column

ہاکر کی آواز نہ سنیں

ہاکر کی آواز نہ سنیں
سیدہ عنبرین

چند برس قبل کا ذکر ہے گھر گھر اور دفتر دفتر کمپیوٹر نہیں پہنچا تھا، تمام حساب کتاب کاغذ قلم سے ہوتا تھا۔ بینک، سرکاری دفتر، بازار ہر جگہ کاغذ قلم کا راج تھا، بسوں کے اڈے پر ہاتھ سے لکھی پرچی ہی ٹکٹ کہلاتی تھی، مسافروں کو متوجہ کرنے کیلئے ہاکر متعین ہوتے تھے، جو مسافر کو دیکھتے ہی لپکتے، اس کا سامان پکڑتے اور اسے کھینچ کر اپنی کمپنی کی بس میں بٹھا دیتے۔ ان کھینچا تانی کرنے والے افراد کو ہاکر کہتے ہیں، نظام کاغذ سے کمپیوٹر پر منتقل ہو گیا ہے، لیکن بسوں کے اڈوں پر ہاکر آج بھی موجود ہیں، ان کا کردار آج بھی وہی ہے جو ستر برس قبل تھا، جاری دور میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، ایک گروہ نے اپنے علاوہ تمام خلقت کو راہ راست سے بھٹکا ہوا قرار دے دیا ہے، وہ خود جس کشتی میں سوار ہیں اسے کشتی نجات قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ہاکروں کا ایک گروہ بھرتی کر رکھا ہے، جو قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو روک کر بتاتا ہے کہ طوفان نوح آنیوالا ہے، سب ڈوب کر مرجائیں گے۔ فقط وہ بچیں گے جو اس کشتی میں سوار ہو جائینگے۔ بس آئو اور اس کشتی نجات میں سوار ہو جائو، لیکن سوار ہونے سے قبل اس کشتی سے باہر رہنے کی جرم کی معافی مانگو، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ معافی فقط زبانی نہیں ہونی چاہیے بلکہ تحریری ہونے کے ساتھ ساتھ صدق دل سے مانگی جانی چاہیے۔ گویا زبان سے اقرار سننیں کے بعد تحریر چیک کی جائیگی اور اس کے بعد ایکسرے، ای سی جی یا شاید الٹرا سائونڈ کرا کے اس بات کا یقین کیا جائیگا کہ معافی دل سے مانگی گئی ہے۔ ساتھ ہی ایک حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب فرشتے نے معافی نہیں مانگی تھی، وہ شیطان قرار پایا۔ جن فرشتوں نے معافی مانگ لی وہ بری ہوئے۔ بہ صد احترام گزارش ہے کہ ایسا کچھ نہ ہوا، شیطان کو کسی قسم کی معافی مانگنے کیلئے نہیں کہا گیا تھا۔ امر واقعہ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ٌ کو تخلیق کیا اور فرشتوں سے کہا، یہ میرا زمین پر خلیفہ ہوگا، اسے سجدہ کرو، فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت آدمٌ کو سجدہ کیا، سوائے ایک کے، جو ابلیس بتایا جاتا ہے، اس کا استدلال تھا کہ باری تعالیٰ تو نے آدمٌ کو مٹی سے بنایا ہے، مجھے آگ سے خلق کیا ہے پس میں اسے سجدہ نہیں کرونگا۔ اس انکار سجدہ سے وہ دھتکار دیا گیا، لیکن خدا کی بارگاہ سے نکالے جاتے وقت اس نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کرتا رہی گا۔ جب سے اب تک وہ بندگان خدا کو بہکا رہا ہے، اسے تا قیامت بہکانے کی مہلت حاصل ہے، واضع رہے شیطان کو معافی کا کوئی معاملہ در پیش نہ تھا، آدمٌ کو سجدہ کرنے کا تھا، معاملہ آج بھی سجدہ کرنے کا ہے، لیکن یہ خدا کی طرف سے نہیں، خدا کے بندوں کی طرف سے ہے۔ ہرکاروں نے اپنی عقل اور علم کے مطابق اسے معافی بلکہ صدق دل سے معافی کا معاملہ بنا دیا ہے، کچھ ہرکارے ڈیوٹی پر مامور ہیں، وہ بعض افراد کو اپنی بنائی ہوئی کشتی میں بٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، انہوں نے مسافروں کو یقین دلایا ہے کہ یہ کشتی انہیں منجھدار سے نکال کر منزل تک پہنچا دے گی۔ کچھ لوگوں کو ان کی بات کا یقین نہیں آتا، بالکل اسی طرح جس طرح بس کے اڈے پر پہنچنے والے مسافر کو جب کوئی ہاکر کھینچ کر اپنی کمپنی کی بس میں بٹھانا چاہتا ہے تو وہ اس کی بات ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور اس کی کمپنی کی بس میں نہیں بیٹھتا، کیونکہ وہ اندازہ کر لیتا ہے کہ وڑائچ طیارہ خستہ ہے، وہ بروقت اڈے سے نکل کر اپنی راہ لینے کی بجائے ابھی مزید ایک گھنٹہ وہیں رینگتا رہے گا، یوں اس کا وقت ضائع ہوگا اور عین ممکن ہے اس بس کا ٹائی راڈ کہیں راستے میں کھل جائے اور تمام سواریاں کسی نہر میں یا کسی کھائی میں جا گریں یا اس بس کے ٹائروں میں جان نہیں، یہ سٹرک پر پہنچ کر پٹاخہ ماریں گے، بس بے قابو ہو کر الٹ جائیگی یا کسی سامنے سے آنے والی بس، کار یا ٹرک سے ٹکرا جائیگی۔ توبہ کی مہلت کہیں اور موجود تھی۔
توبہ کا معاملہ کہیں اور پیش آیا تھا۔ نبی اللہ حضرت نوح علیہ السلام کی امت نے انہیں بے حد تنگ کیا تو انہوں نے اللہ سے شکایت کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک کشتی بنانے کا حکم دیا، کافی عرصہ بعد جب کشتی تیار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب وہ اس کشتی میں سوار ہو جائیں اور اس زمانے کے ہر جاندار کا ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لیں۔ حضرت نوح ٌ نے ایسا ہی کیا، جب وہ اپنا کام مکمل کر چکے اور ان کے بعض اہل خانہ، دوست اور ان کی بات پر یقین رکھنے والے اس کشتی میں سوار ہو گئے تو پھر ایک مہیب طوفان آیا، پانی چڑھنے لگا تو حضرت نوح ٌ نے اپنے بیٹے کو اس کشتی میں سوار ہوجانے کیلئے کہا، لیکن وہ بھی نبیٌ کا نافرمان ان کی بات نہ مانا، اس نے جواب دیا اسے کچھ نہیں ہو گا، وہ محفوظ ہے، پانی ٹخنوں سے اوپر ہوا، پنڈلیوں تک پہنچا، دھڑ سے اوپر ہو گیا تو حضرت نوحٌ نے اپنے بیٹے کو پھر کشتی میں سوار ہو جانے کیلئے کہا تو اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ زیادہ پانی چڑھنے کی صورت میں پہاڑ پر چڑھ جائے گا، پانی مزید بلند ہونے لگا تو فرزند نوح پہاڑ کی بلندی کی طرف چل پڑا، پانی اس کے پیچھے پیچھے تھا، حتیٰ کہ پانی اس کے گلے تک پہنچ گیا، وہ مزید آگے بڑھا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا، اس کا خیال تھا کہ وہ بلند ترین جگہ پر پہنچ کر ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو چکا ہے۔ اللہ کے نبیٌ نے اسے آخری مرتبہ پکارا اور کہا کہ وہ اب بھی کشتی میں آ جائے تو اس کی جان بچ سکتی ہے، لیکن وہ نہ مانا، پانی دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ کی چوٹی کو چھونے لگا، لیکن اس نافرمان شخص نے پھر بھی اپنے والد کی بات نہ مانی، وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے انداز سے خدا کی قدرت کو چیلنج کر رہا تھا کہ اسے کچھ نہیں ہو گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ڈوبنے لگا، مگر پھر بھی سمجھتا رہا کہ وہ ہاتھ پائوں چلا کر بچ جائیگا، وہ نہ جانتا تھا کہ خدا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، بالآخر وہ ڈوب گیا، اس طوفان میں نبی اللہ کے تمام منکر اور انہیں ستانے والے بھی ڈوب گئے، صرف وہ بچے جنہوں نے حضرت نوح ٌ کی بات مان لی، اس طوفان میں جسے طوفان کہتے ہیں ایک اور راز بھی پوشیدہ ہے، جیسے آج سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ نافرمان تو حضرت نوحٌ کا بیٹا اور ان کی امت کے کچھ لوگ تھے، پہاڑ کا کیا قصور تھا، وہ کیوں ڈوب گیا، تو بعد از غور معلوم ہوتا ہے جو کوئی بھی کسی غلط شخص کو اوپر اٹھا لے گا وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب جائیگا۔ نبیٌ کا نافرمان ڈوب جاتا ہے، خواہ اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اور پہاڑ بھی ڈوب جاتے ہیں، خواہ کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں، جب قیامت آئیگی تو اپنی قامت پر ناز کرنے والے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائینگے، بس ان کے لئے عبرت ہے جو اپنے آپ کو پہاڑ جیسا بلند اور سخت جان سمجھتے ہیں، ہاکروں پر نہ جائیں، بس میں بیٹھنے سے پہلے اپنی تسلی ضرور کریں۔

جواب دیں

Back to top button