عدالتی امور میں مداخلت، جیلوں میں اصلاحات

عدالتی امور میں مداخلت، جیلوں میں اصلاحات
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی 77سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے عدالتوں پر کسی نہ کسی طرح ہمیشہ دبائو رہا ہے جس کے نتیجے میں فیصلے کرنے میں منصف صاحبان کو مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ عدالتوں کے دبائو قبول کرنے کی صورت میں فریق ثانی کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ اگر کوئی منصف فیصلہ کرنے سے قبل منعم حقیقی کے روبرو پیش ہونے کا خوف ذہین نشین کر لئے تو بہت کم ایسے منصف ہوں گے جو فیصلے تبدیل کر سکیں۔ یوں تو عدلیہ میں جسٹس ایم آر کیانی جیسے منصف بھی رہے ہیں جنہیں کوئی دبائو میں لانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ بات زد و عام ہے عدالتوں پر بعض اداروں کا دبائو ہوتا ہے جس کے نتیجے میں منصف صاحبان کو مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان پانچ ججوں کی مثال سب کے سامنے ہے جنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو پیش ہو کر بعض اداروں کی مداخلت کی تحریری رپورٹ کی لیکن بدقسمتی سے ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ملک میں کچھ اس طرح کا ماحول بن چکا ہے عوام کا عدلیہ پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ تازہ ترین یہ ہے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا ایک اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان کی صدارت میں ہوا جس میں چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے شرکت کی۔ کمیٹی نے جائیدادوں کے تنازعات ، وارثتی مقدمات اور قتل جیسے سنگین مقدمات کے فیصلوں کی ٹائم لائن مقرر کر دی ہے جس پر شد و مد سے عمل ہوگیا تو امید کی جا سکتی ہے عوام کے بہت سے ایسے مسائل جو برسوں سے عدالتوں میں ہوتے ہیں ان کا تصفیہ ہو سکے گا۔ کمیٹی نے قتل کے مقدمات کے لئے چوبیس ماہ کی ٹائم لائن مقرر کی ہے جس میں ماتحت عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ سوال ہے سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے جن ماڈل کورٹس کا تصور پیش کیا تھا بلکہ ماڈل کورٹس نے کام بھی شروع کر دیا تھا جس میں انہیں مقدمات قتل کا فیصلہ چند ماہ میں کرنے کا پابند بنایا گیا تھا اس بارے کمیٹی نے کوئی بات نہیں کی۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے جن قوموں میں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے اور عدالتوں پر کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں ہوتا ایسی قوموں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہمیں جناب چیف جسٹس کی نیت پر شک نہیں جس عزم کے ساتھ انہوں نے عدلیہ کو کسی قسم کے دبائو سے آزاد رکھنے کا عندیہ دیا ہے خوش آئند ہے اگر اس پر عمل ہوگیا تو عدلیہ کی تاریخ میں جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں کسی مقدمہ میں مطلوب ملزم کو چوبیس گھنٹے میں کسی مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہونے کے سفارش کی ہے یہ قانون تو پہلے سے موجود ہے مگر اس پر بہت کم عمل ہوتا ہے پولیس اسٹیشنوں میں ملزمان کوبغیر کسی مجسٹریٹ کے روبرو پیش کئے کئی کئی روز تک رکھا جاتا ہے بیلف کے خوف سے کئی ملزمان کو تھانوں کی حوالات سے الگ تھلگ جگہوں پر رکھا جاتا ہے لہذا ایسی پریکٹس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں جیلوں میں اصلاحات لانے کی سفارشات پر غور کیا جائی گا۔ ہمیں یاد ہے جناب چیف جسٹس نے جیلوں میں اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ ، اور پی ٹی آئی کی رہنما خدیجہ شاہ کو شامل کیا تھا لیکن ان کی سفارشات ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔ جناب چیف جسٹس کمیٹی میں کسی قیدی کو شامل کر لیتے تو انہیں جیلوں کے اندرونی حالات سے آگاہی ہو سکتی تھی۔ جیلوں میں مبینہ کرپشن کے ایسے ایسے طریقے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا نہ ہی کرپشن میں ملوث ملازمین کو پکڑا جا سکتا ہے ۔ جیلوں کی کرپشن بارے اگر کسی سے پوچھنا ہو تو وہ کوئی قیدی بتا سکتا ہے جس نے زندگی کے کئی برس جیل میں گزارے ہوں۔ ہم چند ایک مثالیں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں صرف قیدی سے ملاقات کرانے کے عوض ہزاروں روے مبینہ طور پر رشوت وصول کی جاتی ہے۔ ویسے تو آئی جی جیل خانہ جات آئے روز اس امر کا سرکلر کرتے رہتے ہیں کسی کو وی آئی پی ملاقات نہ کرائی جائے لیکن انہیں ساری صورت حال کا علم ہوتا ہے بس فائلوں کو پیٹ بھرنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جیلوں میں بغیر پیشگی اطلاع کئے جایا جائے تو انسان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ جیلوں کے ہسپتالوں میں صحت مند قیدیوں اور حوالاتیوں کو رکھنے کے عوض لاکھوں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ جیلوں میں نئے آنے والے ایک ہی مقدمہ میں ملزمان کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کے بعد انہیں ایک ہی بیرک میں رکھنے کے عوض ہزاروں روپے مبینہ طور رشوت وصول کیا جاتی ہے۔ یوں اگر جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن بارے لکھوں تو کئی کالم درکار ہوں گے۔ بعض جیلوں میں جب کوئی انسپکشن ٹیم آتی ہے تو سپرنٹنڈنٹس کو پہلے سے باخبر کر دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنے اپنے معاملات ٹھیک کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ جیلوں کے ہسپتالوں میں صحت مند قیدیوں کو رکھنے کا ذکر کر چکا ہوں ایسے موقعوں پر صحت مند قیدیوں کو انسپکشن ٹیموں کی آمد سے پہلے پہلے بیرک میں بھیج دیا جاتا ہے جس کے بعد سب اچھا ہو جاتا ہے تو انسپکشن کرنے والی ٹیم کے ارکان کسی کی کرپشن کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے قیدی اس قدر خائف ہوتے ہیں وہ کسی جیلر کے بارے میں شکایت کرنے سے قبل ہزار مرتبہ سوچ بچار کرتے ہیں۔ جیلوں میں جمع ہونے والی مبینہ رشوت کی رقوم اوپر تک جاتی ہے میں یہ بات حلفا تحریر کر رہا ہوں ہر جیل میں کرپشن ہوتی ہے بہت سی جیلوں سے مبینہ کرپشن کی رقوم آگے بھی بھیجی جاتی ہے بلکہ سپرنٹنڈنٹس صاحبان ذاتی طور پر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے گوگا نامی حوالاتی کو شکایت کرنے پر ذاتی طور پر سپریم کورٹ طلب کرکے حالات سے آگاہی حاصل کی تو جیلر کو راولپنڈی جیل سے ہمیشہ کے لئے بدر کر دیا گیا تھا۔





