بے حسی

بے حسی
محمد مبشر انوار
پاکستان کے حالات دیکھتے ہوئے بے اختیار سوچ ابھرتی ہے کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟ تسلیم کہ دفاعی محاذ پر ہم نے اپنے روایتی دشمن کو دندان شکن جواب دیا ہے اور ان شاء اللہ امید واثق ہے کہ مستقبل میں بھی دشمن کے دانت یونہی کھٹے کئے جائیں گے لیکن کیا فقط دفاعی محاذ پر ترقی، ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ہر شعبہ ہائے زندگی میں پیہم ترقی ہی کسی بھی ریاست کی بقاء کو خوشحالی کی ضامن ہے ،اس کی واضح ترین مثال ہمارے روایتی دشمن کی حالت سے لگائی جا سکتی ہے کہ ایک طرف وہ معاشی میدان میں ہم سے کہیں آگے ہونے کے باوجود،ہم سے کئی گنا زیادہ دفاعی بجٹ مختص کرنے کے باوجود، بہترین و معیاری و مہنگا ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود بری طرح شکست کھا گیا۔پاکستان کی یہ واضح عسکری برتری و پیشہ ورانہ مہارت دنیا نے تسلیم کی، دادوتحسین کے ڈونگرے بھی برسا دئیے،ہمارے ناز بھی اٹھانے لگی اور ہماری اہمیت بھی تسلیم کر لی لیکن کیایہ دادوتحسین ملک میں بے روزگاری و مہنگائی و صنعتی ترقی کی بنیاد بن سکی؟لفاظی یا زبانی جمع خرچ میں ہم کتنے ہی دعوے کر لیں کہ ملک میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے یا کتنے ہی ایم او یوز دکھا لیں لیکن جب تک سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار نہیں ہو گا،تب تک غیر ملکی سرمایہ کاری کسی بھی صورت نہیں آ سکتی،اس کی توقع کرنا بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے،حد تو یہ ہے کہ گذشتہ برس ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد ملکی و غیرملکی سرمایہ کار، اپنا سرمایہ پاکستان سے نکال لے گئے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکے،خیر یہ حقائق تو بارہا قرطاس کے سپرد کر چکا ہوں لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کوئی اہمیت ہی نہیں۔
چند سال پہلے ایک تحریر موسمی تغیرات پر لکھی تھی جس میں ’’ ہارپ ٹیکنالوجی‘‘ کے حوالے سے خدشات کا ذکر کیا تھا ،عالمی سطح پر بدلتے ہوئے موسم کے متعلق گزارشات کی تھی، حفاظتی تدابیر کے حوالے سے لکھا تھا لیکن کیا ہوا؟ موسم ایسے بدل رہے ہیں جیسے ہمیں ہماری کوتاہیوں کی سخت سزا دے رہے ہوں، ارباب اختیار کی مجرمانہ غفلت کا خمیازہ بے بس، پسی ہوئے غریب ، محکوم عوام بھگت رہے ہوں۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دنیا پانی محفوظ بنانے کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر قبل ازوقت کر رہی ہے جبکہ ہمارے ارباب اختیار کو اس حوالے سے بارہا تنبیہ کی گئی کہ کنکریٹ کے جنگل بچھانے کی خاطر،نباتاتی جنگلوں کی بھینٹ نہ دیں ،جو قدرت کی طرف سے موسموں کو ایک حد کے اندر رکھتے ہیں کہ قدرت کے تمام تر انتظامات انتہائی خوبصورتی کے ساتھاس ماحول کو متوازن رکھے ہوئے ہیں لیکن کسی کے کا ن پر جوں تک نہیں رینگی۔ذاتی مفادات و کاروبار کی خاطر اس متوازن انتظام کے ساتھ بری طرح کھلواڑ کیا گیا، سڑکوں کی کشادگی کی خاطر،دہائیوں پرانے درختوں کو کاٹ پھینکا گیاحتی کہ عدالت عالیہ کے ایک معزز جج کے سامنے حلف تک دیا کہ سڑک بنتے ہی ،شجر کاری کی جائیگی لیکن وہ پاکستانی ارباب اختیار ہی کیا جو ایسے کسی حلف کی پاسداری کریں،رات گئی بات گئی ،کہ مذکورہ جج کے عدالت عالیہ سے ہٹتے ہی،کون سی عدالت میں اس حلف کی خلاف ورزی پر آواز اٹھتی یا کون سا جج از خود اس خلاف ورزی پر نوٹس لیتا؟بہرکیف اسی پر کیا بس کریں کہ خشک موسموں میں ارباب اختیار نے یہ سمجھ لیا کہ اب نہ تو بادل گرجیں گے اور نہ ہی برف پوش پہاڑوں سے گلیشر پگھلیں گے، بس وقت گزر گیا تو ہر طرف چین ہوگا کہ ہم تو عرصہ دراز سے ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی پر عمل پیرا ہیںاور ڈنگ ٹپائوپالیسی پر چلنے والے،ناک سے آگے کب دیکھتے ہیںکہ ان میں اس کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔یہی سب کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا ہے اور ابھی تک ہو رہا ہے کہ اقتدار میں آنے والے ہر بااختیار کے نزدیک،وہی اس ملک کا رہبر و رہنما و مسیحا ہے،وہی ہے جس کے دم قدم سے پاکستان شاد و آباد ہے،نہ کسی نے مستقل پالیسی دی اور نہ کسی نے آنے والے کے سامنے یہ عرض گذاری کہ حضور والاریاست باقی رہنے والی ہے،ناگزیر ہستیوں سے قبرستان آباد ہیںلہذا ملک کو کسی مستقل شاہراہ پر گامزن کریں۔بدقسمتی سے ہوشمند آوازوں کی طرف سے یہ گزارشات مسلسل پیش کی جاتی رہی لیکن قریب حلقہ احباب میں ایسے ایسے نابغہ روزگار میسر رہے کہ جن کی زبانوں سے ظل الٰہی کا اقبال بلند ہو،اور حضور کا سایہ سدا سروں پر سلامت رہے،بس آپ ہی ہیں جو اس نائو کے کھیون ہار ہیں،آپ سے قبل تو سب فاترالعقل تھے،حالانکہ صاحب اختیار بذات خود اس حقیقت سے واقف کہ ان سے پہلوئوں کے ساتھ بھی یہ درباری ایسا ہی رویہ رکھتے تھے لیکن پھر بھی ’’ تعریف/خوشامد‘‘کسے پسند نہیں؟
موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر بلکہ خمیازہ ابھی کے پی میں ہے اور ممکنہ طور پر اس تحریر کے شائع ہونے تک،اس کے اثرات ملک کے دیگر حصوں تک پہنچیں گے کہ یہ ممکن نہیں جس قدر بادل برسا ہے،یہ سیلاب بلا سمندر تک پہنچنے سے پہلے کتنے غریبوں کا آنگن اجاڑے گا،کتنے لاشے ساتھ بہائے گا،کتنے کاشتکاروں کی کھڑی فصل کو تباہ وبرباد کرتا ہوا سمندر میں جا گرے گا؟اشرافیہ نے جو طبقاتی تفریق پیدا کررکھی ہے،اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اشرافیہ کی فصلیں اس سیلاب بلا میں برباد ہوں کہ سرکاری وسائل سے اپنی زمینیں اور کھیتیاں محفوظ بنارکھی ہیں جبکہ اس طوفانی سیلاب کا رخ موڑنے کے لئے،بند ہمیشہ ان زمینوں کی طرف موڑا جاتا ہے کہ جن کی کل جمع پونجی ہی ان کی کھیتی باڑی ہے۔ واللہ اعلم جس طرح کے پی میں بادل پھٹے ہیں وہ واقعتا قدرتی ہے یا اس کے پیچھے ’’ ہارپ ٹیکنالوجی‘‘ موجود ہے کہ چند برس پہلے ان خدشات کا اظہار انتہائی شدومد سے کیا گیا تھا کہ عالمی طاقتوں نے موسمی تغیرات پر قدرت حاصل کر لی ہے اور وہ اپنی منشاء کے مطابق کسی بھی خطے میں ایسی کارروائی میں کامیاب ہو چکے ہیں اور بلاشبہ اس وقت عالمی طاقتوں کا ہدف مسلم ممالک ہی ہیں۔دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایک لمحہ کے لئے اس آفت کو ناگہانی اور قدرتی تسلیم کر لیتے ہیں ،تو کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ ان چند سالوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتی؟حکومت نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا،سب سامنے ہے کہ ذاتی مفادات کا تحفظ اولین ترجیح رہا ہے جبکہ عوام کو ووٹ نہ دینے کی سزا دی جارہی ہے،آبی ذخائر تو حکومت کیا تعمیر کرتی، حکومت بلکہ حکومتوںکی اس سے زیادہ نااہلی کیا ہو گی کہ پانی کے قدرتی راستوں کو بھی بیچ کر ،تباہی و بربادی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے،مقام افسوس کہ تبدیلی کی علمبردار کے پی حکومت دریا پر بنے ایک اہم سیاسی رہنما کے ہوٹل کو گرا نہیں سکی،اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں،سب جانتے ہیں کہ اگر اس ہوٹل کو گرایا جاتا ہے تو کے پی کے وزیراعلی کو اپنے اقتدار کا خطرہ ہے،اور کے پی کے وزیراعلی کو اقتدار اس قدر عزیز ہے کہ وہ اپنے ’’ اسیر قائد‘‘ کے حکم کو بھی تسلیم نہیں کررہے۔اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور اس کا بہترین نمونہ اس وقت وزیراعلی کے پی کی صورت ہمارے سامنے ہے کہ دیگر صوبوں میں اقتدار میں موجود وزرائے اعلیٰ توشروع سے ہی سٹیٹس کو کے نمائندے رہے ہیںلہذا ان سے اس کی توقع کرنا عبث ہے ،توقع تو اس شخص سے تھی جو تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کھڑا تھا لیکن اس کا نعرہ و نظریہ صرف ایک وزیر اعلی کی نشست کی نذر ہو گیا، بہرحال کون جانے کہ ان خدمات کے عوض مزید کیا ملے؟اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی پانی کے قدرتی راستوں کی یہی صورتحال ہے کہ جابجا ان راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جاچکی ہیں اور عوام کو لوٹ جاچکا ہے لیکن ایسی تباہ کن بارشوں کے بعد،تباہی بھی عوام ہی کی ہونی ہے کہ اشرافیہ نے تو یہاں رہنا نہیں ہے۔
دوسرا موضوع تو اس سے بھی زیادہ حساس ہے کہ بانی پاکستان کی تصاویر اٹھانے والوں پر پاکستان کی زمین تنگ ہو گئی ہے؟ بابائے قوم کے ساتھ اپنی محبت و الفت و انسیت کا اظہار کرنا جرم بن گیا ہے؟یا اپنی ایک غلطی کو سچ ثابت کرنے کے لئے پے درپے غلطیاں کی جائیں گی؟وہ شخص جس نے اپنے وزیر کو سرکاری وسائل سے چائے پینے سے منع کردیا،اس شخص کی تصویر ایک ایسی حکومت سے جشن آزادی کے موقع پر چھوٹ جانا کہ جس نے تمام تر اشتہاری مہم سرکاری وسائل سے چلائی ہو،نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں کہ ایسے اجلے شخص کو ایسی تشہیر سے کیا لینا دینا لیکن آفرین ہے کہ اس قوم پر جو اپنے محسن کو نہیں بھولی اور اپنے وسائل سے اپنے محسن کی تصویر خریدی اور سولہ اگست کو ملک بھر میں اس کی تصویر کو آویزاں کیا، لہرایا اور اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ قوم اپنے محسنوں کو نہیں بھولتی وہ خواہ قائداعظم لہوں یا قائد ملت یا قائد عوام یا محسن پاکستان یا اسیر عمران خان بشرطیکہ انہیں موقع فراہم ہو لیکن صد افسوس کہ حکمرانوں کی بے حسی حد سے گزر چکی ہے۔





