بارشوں سے مزید درجنوں شہری جاں بحق

بارشوں سے مزید درجنوں شہری جاں بحق
موسمیاتی تغیر سے اس وقت ساری دُنیا ہی متاثر ہے۔ موسمیاتی تغیر کی بنیادی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ موسمیاتی تغیر کے باعث ساری دُنیا کو قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بڑی تباہیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ بے شمار جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد دُنیا کے کسی نہ کسی خطے میں موسمیاتی تغیر بڑے جانی و مالی نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تغیر میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن موسمیاتی تغیر سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے اور یہ اس کی لیے ایک سنگین چیلنج سے کم نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں بڑی تباہ کاریاں مچ رہی ہیں۔ ہر سال ہی سیلاب کا سامنا ہوتا ہے، جس میں بڑے جانی اور مالی نقصانات سے واسطہ پڑتا ہے۔ سال 2022کا سیلاب کسی لحاظ سے بڑی تباہی سے کم نہ تھا۔ ساڑھے تین کروڑ لوگ اس سے براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ تھا۔ لاکھوں گھر تباہ ہوئے تھے۔ 1700سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی تیار فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔ لوگوں کے مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ کر ہلاک ہوگئے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سیلابی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اُس وقت پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اُنہوں نے افسوس کے اظہار کے ساتھ دُنیا بھر سے اس صورت حال سے اُبھرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کی درخواست بھی کی تھی۔ اُس سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ابھی تک دادرسی کے منتظر ہیں۔ اس بار بھی بارشوں کا خاصا زور ہے۔ ملک اس وقت شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے۔ پورے ملک میں اس حوالے سے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ مون سون سلسلے کی بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال کے باعث 700شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بے شمار مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ خاصی بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ لوگوں کے آشیانے سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکے، پیاروں سے محروم ہوچکے، ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ گزشتہ روز ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث مزید 56لوگ جاں بحق ہوگئے۔ کراچی میں بادل اس زور سے برسے کہ پورا شہر ڈوب گیا۔ اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے مزید 45افراد جاں بحق ہوگئے، دوسری طرف موسلا دھار بارش کے باعث کراچی پانی میں ڈوب گیا جبکہ 11افراد جاں بحق ہوگئے۔ پی ڈی ایم اے نے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں اب تک ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق سیلاب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں اب تک مجموعی طور پر 225افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ صوبائی مشیر صحت احتشام علی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 822متعدی بیماریوں کے کیس رپورٹ ہوئے، 24گھنٹے میں 442نئے مریض اسپتالوں میں لائے گئے، متعدی بیماری سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ مشیر صحت نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 32میڈیکل کیمپس قائم ہیں، جن میں 7447مریضوں کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔ سیلاب سے 46طبی مراکز متاثر ہوئے جبکہ 4مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ مزید برآں خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں شانگلہ اور بونیر میں پاکستان آرمی کے انجینئرز کور کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں، ادھر تحصیل ٹوپی کے علاقہ ڈلورائی میں بھی طوفانی بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کے بعد پاک فوج کی امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ پاک فوج کے دستوں نے فوری پہنچ کر سول انتظامیہ کی مدد کی، ٹوپی کے متاثرہ علاقوں ڈلورائی، سرکوئی اور بادہ میں پاک فوج کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر کارروائیاں کی گئیں۔ دوسری طرف کراچی میں وقفے وقفے سے جاری تیز بارش نے پورے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا، بارش کے باعث نظام زندگی بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا اور متعدد علاقے زیر آب آگئے۔ سیکڑوں افراد سڑکوں پر پانی جمع ہونے کے باعث گھروں تک نہیں پہنچ سکے اور اپنی سواری سمیت پیدل سفر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بارش کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 11افراد جاں بحق ہوگئے، مختلف علاقوں میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ شہر کے مختلف علاقوں گلشن معمار، واٹر پمپ، عائشہ منزل، نارتھ کراچی، سرجانی ٹائون، گرومندر، لسبیلہ، صدر، لیاقت آباد اور اطراف میں تیز بارش ہوئی، اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد، حیدری اور ملحقہ علاقوں میں بھی تیز بارش ہوئی۔ موسلادھار بارش کے باعث شہر کی مرکزی سڑکوں کے ساتھ اندرونی گلیوں میں بھی پانی جمع ہوگیا، کئی شاہراہوں پر گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں اور سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا۔ گلشن حدید میں ایک گھنٹے سی موسلادھار بارش سے گلیاں زیر آب آگئیں اور پانی گھروں میں داخل ہوگیا، لوگ اپنا قیمتی سامان محفوظ جگہ ٹھکانے لگانے لگے۔ حسن اسکوائر، نیپا چورنگی، ضیا کالونی، گلشن شمیم، لیاقت آباد 10نمبر، جیل چورنگی، کارساز، کورنگی اور ایکسپریس وے سمیت متعدد مقامات پر بارش کا پانی جمع ہوگیا، جس کے سبب ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوگئی۔ بارش کے باعث سندھ ہائیکورٹ کی چھتیں بھی ٹپکنے لگیں جبکہ سندھ سیکرٹریٹ میں پارکنگ شیڈ گرگیا۔ حکام کے مطابق شیڈ کے نیچے پھنسے افراد کو ریسکیو کیا جارہا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 470سے زائد فیڈر ٹرپ ہونے سے بجلی کی فراہمی بھی بند ہوگئی۔ بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں ہونے والے نقصانات افسوس ناک ہیں۔ 700سے زائد لوگ بارشوں اور سیلاب کے باعث زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ پوری قوم اتنے بڑے پیمانے پر اموات پر اُداس اور اشک بار ہے۔ یہ وقت متاثرین کی ہر ممکن مدد اور بحالی کے لیے اقدامات کا متقاضی ہیں۔ پاک فوج اور امدادی اداروں کو سلام ہے کہ وہ بارش اور سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے تندہی سے کوشاں ہیں۔ ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں۔ بارش اور سیلاب متاثرین انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ہم وطنوں کی مدد کے لیے جو ممکن ہوسکے، وہ کرنا چاہیے۔ دُنیا کو اس نازک موقع پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے، وطن عزیز اتنے مشکل حالات سے تن تنہا عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ دُنیا کو اُس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
ڈینگی کیسز میں اضافہ
پورے ملک میں مون سون کی تیز بارشیں جاری ہیں، اس کی وجہ سے مچھروں کی افزائش خاصی بڑھ گئی ہے۔ ویسے تو ہر سال ہی ملک بھر میں ڈینگی وائرس کی زد میں بے شمار لوگ آتے ہیں، اس بار بھی کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور ملک کے دیگر شہروں میں ڈینگی وائرس کے مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔ 2011ء میں ڈینگی وائرس نے ملک میں بڑی تباہ کاریاں مچائی تھیں۔ ہزاروں لوگ اس کی زد میں آئے تھے۔ ملک بھر میں سیکڑوں مریض جاں بحق ہوئے تھے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر تھا۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ لوگ ڈینگی کے نام سے ہی اندیشوں کا شکار ہوجاتے تھے۔ اُس وقت ملک بھر میں ڈینگی کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے۔ جس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اگلے برسوں میں ڈینگی کیسز میں خاصی کمی آئی، لیکن اب بھی ڈینگی وائرس اپنا وجود رکھتا ہے اور ملک بھر سے زیادہ نہ سہی اس کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک میں ڈینگی وائرس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ لاہور میں درجنوں لوگ اس کی زد میں آچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور میں ڈینگی وائرس کا خدشہ برقرار ہے، محکمہ صحت کے مطابق ڈینگی بخار کے 6نءے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال زون سے ڈینگی بخار کے 5نئے مریض رپورٹ ہوئے، واہگہ ون سے ڈینگی بخار کا ایک نیا مریض رپورٹ ہوا۔ رواں برس اب تک ڈینگی بخار کے 64کنفرم مریض رپورٹ ہوچکے ہیں، بارشوں سے مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈینگی وائرس کے تدارک کے لیے جہاں حکومتی سطح پر اقدامات ضروری ہیں، وہیں عوام کو بھی ہر طرح سے احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ضروری ہے۔ ڈینگی وائرس سے بچائو کے لیے مچھر کُش اسپرے کروائے جانے چاہئیں۔ شہری مچھروں سے تحفظ کے لیے لوشن وغیرہ کا استعمال کریں۔ خود بھی مکمل آستین کے کپڑے پہنیں اور بچوں کو بھی پہنائیں۔ صاف پانی کو کھلے برتنوں میں نہ رکھیں، اُنہیں ڈھانپ کے رکھیں۔ پانی کی ٹنکیوں کو مکمل ڈھانپ کر رکھیں۔ احتیاط کے ذریعے ڈینگی وائرس کا راستہ روکنا ممکن ہے۔





