Column

میرِ کارواں۔۔۔ حفیظ بقاپوری

میرِ کارواں۔۔۔ حفیظ بقاپوری
تحریر: رفیع صحرائی
ہمارے دوست حفیظ بقاپوری آج کل لاہور میں گورنمنٹ چوبرجی ہائی سکول میں پرنسپل ہیں۔ بہت ذہین، محنتی، انرجیٹک ہونے کے علاوہ اپنے کام سے انتہائی مخلص ہیں۔ آپ انہیں ون مین آرمی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ایک انسان میں اتنی بہت سی خوبیوں کا اکٹھا ہو جانا قدرت کی اس شخص پر خاص عنایت اور عطا ہوتی ہے۔ مجھے ان کی ماتحتی میں چند سال گزارنے کی سعادت ملی ہے۔ ان چند سالوں کے درمیان انہیں قریب سے جاننے کا موقع ملا تو ان کی ذات میں ایک مکمل استاد اور باصلاحیت لیڈر نظر آیا۔
ان کی تقرری بطور سبجیکٹ سپیشلسٹ نومبر 2007ء میں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا میں ہوئی تو وہ پہلے سبجیکٹ سپیشلسٹ تھے جو سکول اپ گریڈ ہونے کے بعد تشریف لائے تھے۔ اس وقت سکول میں مستقل پرنسپل کی سیٹ بھی خالی تھی۔ چونکہ عبدالحفیظ بقاپوری سب سے سنیئر پوسٹ پر تھے لہٰذا محکمہ کی جانب سے پرنسپل شپ بھی انہیں سونپ دی گئی۔ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول منڈی احمد آباد میں پرنسپل شپ کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ ویسے تو ہر ہائیر سیکنڈری سکول میں یہ عہدہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ سبجیکٹ اسپیشلسٹ صاحبان گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کے ہوتے ہیں۔ پرنسپل کو ان کا احترام بھی کرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ سختی سے بات بھی نہیں کی جا سکتی آنے والے وقت میں انہی صاحبان نے سی ای او اور ڈی ای او بننا ہوتا تھا۔ ( اب ایسا نہیں ہے۔ ان پوسٹس براہِ راست امتحان لے کر تعیناتی کی گئی ہے) جبکہ اسی سکول میں سیکنڈری اور ایلیمنٹری ونگ بھی ہوتے ہیں، جو سبجیکٹ سپیشلسٹ جیسی مراعات چاہتے ہیں، مگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اور بھی کئی انتظامی معاملات پیش آتے ہیں، جس کی وجہ سے ہائیر سیکنڈری سکول مسائل کا گڑھ بنے رہتے ہیں ۔ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول میں مسائل اور بھی زیادہ تھے کہ یہ ادارہ دو عمارتوں پر مشتمل تھا۔ دونوں عمارتوں کے درمیان دو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
عبدالحفیظ بقاپوری نے ادارے کی باگ ڈور سنبھالتے ہی اپنی فراست، بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کو بھرپور استعمال میں لاتے ہوئے تمام سٹاف کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ عبدالحفیظ بقاپوری نے سیکنڈری اور ایلیمنٹری سٹاف کو اعتماد میں لیا اور ادارے میں گیارہویں کلاس کا آغاز کر دیا۔ انہیں عوام کی طرف سے تو بہت پذیرائی ملی لیکن تحصیل دیپال پور کے چند ہائی سکولز کے سربراہان نے ناکامی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی بھی کی، مگر اس مردِ مجاہد نے جو فیصلہ لیا تھا اس پر ڈٹ گئے۔ بعد ازاں ڈاکٹر محمد شفیق طاہر اور ڈاکٹر نیاز احمد عازم جیسے انتہائی قابل اور محنتی اساتذہ بھی ان کے دست و بازو بنے اور یہ قافلہ منزل کی طرف گامزن ہو گیا۔
اصل دشواری اس وقت پیش آئی جب گیارہویں کلاس کے طلبہ کی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور میں رجسٹریشن کا مرحلہ آیا۔ لاہور بورڈ نے ہمارے ادارے کو رجسٹرڈ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ بورڈ کا موقف تھا کہ الحاق کے لیے منظور شدہ اسامیوں کا کم از کم 50فیصد سٹاف سکول میں پڑھا رہا ہو گا تو الحاق ہو سکے گا، ورنہ یہ ممکن نہیں، جبکہ ہمارے ہاں ہائیر کلاسز کی 23منظور شدہ اسامیوں میں سے صرف 3استاد موجود تھے۔ تب ہائیر سیکنڈری کلاسز لگانے کی مخالفت کرنے والے احباب کو موقع مل گیا۔ ان کی باتوں کی عبدالحفیظ بقاپوری کو زیادہ پروا نہیں تھی۔ وہ انہیں تندیِ بادِ مخالف سمجھتے تھے البتہ اس بات کی پریشانی ضرور تھی کہ والدین اور طلبہ نے ان کی ذات پرجو اعتماد کیا تھا، اس کا کیا بنے گا۔ اگر ریگولر بچوں کا پرائیویٹ داخلہ جائے گا تو پورے علاقے میں شور بلند ہو گا۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہوں گی۔ اس اللہ کے بندے نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے سینہ سپر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ پامردی سے ہر رکاوٹ کو عبور کیا اور حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کر کے ناقدین کو انگشت بدنداں کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ معیاری تعلیم کا آغاز ہوا اور صرف دو سال میں حالت یہ ہو گئی کہ تحصیل کے کئی کالجز کی نسبت ہمارے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول میں انٹر کے طلبہ کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
اس دور میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف بھی بھرپور توجہ دی گئی۔ سکول میں چار ایکڑ پر مشتمل پلے گرائونڈ کو آباد کیا گیا۔ اتھلیٹک، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ، والی بال کے ساتھ ساتھ کبڈی کی ٹیمیں تیار کی گئیں۔ ہر ٹیم کا انچارج استاد مقرر کیا گیا جو ٹیم کی کارکردگی کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ سکول میں بزمِ ادب کو فروغ دیا گیا۔ تقاریر کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ عبدالحفیظ بقاپوری کا یہ کہنا تھا کہ تقاریر کرنے والے طلبہ بہترین لیڈر ثابت ہوتے ہیں۔ وہ انٹر کے طلبہ کو اردو اور انگریزی تقاریر خود تیار کراتے تھے جبکہ میٹرک کے طلبہ کی تیاری میرے ذمہ تھی۔ ان کے دور میں ہمارا ادارہ تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں ضلع بھر میں ممتاز حیثیت اختیار کر گیا۔ وہ میرِ کارواں تھے، جن کی سربراہی میں طلبہ اور اساتذہ میں ولولہ تازہ پیدا ہو گیا تھا۔ کبھی تعلیمی ایمرجنسی لگا کر طلبہ کی نصابی سرگرمیوں کو مہمیز کیا جاتا تو کبھی ہفتہ تربیت کے نام پر طلبہ کو اچھا شہری بننے کے گُر سکھائے جاتے۔ مختصر یہ کہ ان کا بطور سربراہ ادارہ وہ دَور یادگار تھا۔ ان کی انہی خدمات کی وجہ سے انہیں ’’ محسنِ منڈی احمد آباد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
عبدالحفیظ بقا پوری نے اس کے بعد اپنی خدمات بطور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری و ہائی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں انجام دیں اور جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔
بطور ایجوکیشن ریفارمر عبدالحفیظ بقاپوری کا نام موجودہ دور میں نمایاں ہے۔ آج کل گورنمنٹ ہائی سکول چوبرجی میں بطور سربراہ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جہاں کا چارج سنبھالتے ہی انہوں نے پورے سکول کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کا بڑا پراجیکٹ مکمل کر کے اس کا باقاعدہ افتتاح اس ادارے کے سابق سربراہان کے ہاتھوں کروا کر ایک نئی روایت آغاز کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے میرِ کارواں کی خوبیوں نگہ بلند، سخن دل نواز اور جاں پُرسوز سے متصف عبالحفیظ بقاپوری عزم، حوصلہ، جرات اور دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں جو ستائش اور صلے کی تمنا کیے بغیر اپنی خدمات کے نقوش دلوں پر ثبت کرتے جا رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button