بلوچستان سرکاری اراضی اسکینڈل، صوبائی وسائل کی لوٹ سیل

بلوچستان سرکاری اراضی اسکینڈل، صوبائی وسائل کی لوٹ سیل
عقیل انجم اعوان
بلوچستان میں سرکاری زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور قبضے کا اسکینڈل صوبے کی تاریخ کے ان سنگین واقعات میں شمار ہوتا ہے جو نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی ریاستی رٹ اور حکومتی نظام پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ قیمتی اراضی کا چند بااثر طبقوں کے ہاتھوں منتقل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح عوامی وسائل کو منظم منصوبہ بندی کے تحت چند خاندانوں اور سیاسی شخصیات میں بانٹ دیا گیا۔ اس اسکینڈل نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں جہاں تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل پہلے ہی شدت اختیار کیے ہوئے ہیں وہاں وسائل کے غلط استعمال نے عوامی اعتماد کو مزید مجروح کیا۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ قیمتی زمینیں جنہیں ترقیاتی منصوبوں، عوامی فلاح و بہبود، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا انہیں سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی، جاگیرداروں اور زمین مافیا کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ اس عمل کو قانونی رنگ دینے کے لیے کاغذی کاروائی کو مکمل طور پر استعمال کیا گیا مگر جب ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی تو ان میں بے شمار بے ضابطگیاں اور بدعنوانی کے شواہد موجود تھے۔ کئی الاٹمنٹس مشکوک افراد کے ناموں پر کی گئیں اور بعض جگہوں پر جعلی شناختی دستاویزات بھی استعمال ہوئیں۔
اس اسکینڈل میں سب سے زیادہ سوال صوبائی محکموں، خصوصاً ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کردار پر اٹھے ہیں۔ زمین کی الاٹمنٹ کے تمام معاملات انہی کے دستخط اور مہروں کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ ان اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ زمین چند لاکھ روپے کے عوض مخصوص افراد کے نام منتقل کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر الاٹمنٹس ان شخصیات کے ناموں پر کی گئیں جو براہِ راست حکومتی عہدوں پر فائز تھیں یا طاقتور سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق کئی سابق وزرائ، اراکین اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری افسران اس فہرست میں شامل ہیں۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، محکمہ زراعت اور دیگر متعلقہ محکمے بھی اس عمل میں شریک تھے۔ بعض افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے الاٹمنٹ کے بدلے بھاری رقوم رشوت میں وصول کیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا عمل صرف چند افسران کا ذاتی کھیل نہیں تھا بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کے تحت کیا گیا جس میں مختلف ادارے اور سیاسی شخصیات باہمی تعاون سے شامل تھیں۔ بلوچستان کے عوام کے لیے یہ معاملہ صرف زمین پر قبضے کا نہیں بلکہ ان کی محرومیوں کی ایک اور مثال ہے۔ صوبہ جسے پہلے ہی معاشی اور سماجی مسائل نے گھیر رکھا ہے وہاں عوام کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے وسائل پر ان کا حق محفوظ نہیں ہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر کسانوں اور بے زمین مزدوروں کو زمین دینے کے وعدے کیے گئے مگر جب عملی صورتحال دیکھی گئی تو یہ زمینیں قبائلی سرداروں اور سیاسی اشرافیہ کے ہاتھ چلی گئیں۔ کئی سرداروں نے اپنے خاندان یا فرنٹ مین کے نام زمین منتقل کرائی اور بعد میں انہیں کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کر کے مالی فائدہ حاصل کیا۔ یہ صورتحال صوبے کے اندر پسماندگی کو مزید بڑھانے کا باعث بنی۔ اگر عوامی وسائل عوام پر ہی خرچ نہ ہوں تو تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کیسے فراہم ہوں گی؟ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں عوامی بیانیہ اکثر اس طرف مڑ جاتا ہے کہ صوبائی وسائل پر چند خاندان قابض ہیں اور عام عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ تحقیقات سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ جب بھی اس معاملے کو کسی فورم پر اٹھایا گیا، طاقتور سیاسی اور قبائلی دباؤ کے تحت کیس دبا دئیے گئے۔ کئی بار انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن جیسے ہی اعلیٰ حکام یا بااثر شخصیات کے نام سامنے آتے، کمیٹیاں غیر فعال کر دی جاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہے کہ بلوچستان میں زمین کا کوئی بھی بڑا اسکینڈل سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کیسے ممکن ہوئی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ایک منظم نظام کے تحت زمین مافیا کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ اگر کسی نے آواز بلند کی تو اسے سیاسی دباؤ یا ذاتی دھمکیوں کے ذریعے خاموش کروا دیا گیا۔ یہی رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بدعنوانی صرف افراد کی سطح پر نہیں بلکہ اداروں کی سطح پر موجود ہے۔ اس معاملے میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ زمین کی الاٹمنٹ کے قوانین کو کس طرح توڑا گیا۔ موجودہ قوانین کے مطابق سرکاری زمین صرف مخصوص عوامی مقاصد یا انتہائی شفاف طریقۂ کار کے تحت الاٹ کی جا سکتی ہے۔ مگر اس اسکینڈل میں ان قوانین کو یا تو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا یا پھر کاغذی کارروائی میں ایسا دکھایا گیا کہ جیسے سب کچھ قانون کے مطابق ہو رہا ہو۔ کئی جگہوں پر قواعد کے خلاف جا کر زمین الاٹ کی گئی اور بعض مقامات پر ایسے لوگوں کو زمین دی گئی جنہیں اس کا قانونی حق ہی حاصل نہیں تھا ۔ بلوچستان کا یہ اسکینڈل محض صوبائی معاملہ نہیں رہا بلکہ اس نے قومی سطح پر بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ اگر ملک کے سب سے بڑے اور وسائل سے بھرپور صوبے میں ہی عوامی حق محفوظ نہیں تو باقی صوبوں میں کیا صورتحال ہوگی؟ اس سوچ نے ریاستی اداروں پر اعتماد کو کمزور کیا ہے۔ خاص طور پر جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ وفاقی سطح پر بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس اسکینڈل کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں۔ سپریم کورٹ اور نیب جیسے اداروں پر عوام کی نظریں جمی ہوئی ہیں کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بلوچستان کے عوام کی محرومی مزید بڑھ جائے گی اور ریاستی اداروں پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع اصلاحاتی پالیسی بنائی جائے جس کے تحت سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کے تمام ریکارڈ کو ڈیجیٹل کیا جائے اور عوامی رسائی کے لیے آن لائن کر دیا جائے۔ اس سے شفافیت بڑھے گی اور مستقبل میں زمین مافیا کے لیے یہ کھیل کھیلنا آسان نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ متعلقہ محکموں میں احتسابی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی افسر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کر سکے۔
بلوچستان زمین اسکینڈل اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ صوبے میں بدعنوانی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہے۔ اگر آج ان بااثر افراد کو احتساب کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو کل یہی زمینیں صوبے کی آنے والی نسلوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہوں گی۔ یہ محض ایک اسکینڈل نہیں بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں بلوچستان کے انتظامی ڈھانچے کی تمام خامیاں اور کمزوریاں صاف نظر آتی ہیں۔ اب یہ ریاست اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی وسائل کو عوام کے لیے استعمال کریں اور اس بدعنوان نظام کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔





