ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئے

ذرا سوچئے
طاقت اور حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہتی
امتیاز احمد شاد
قوموں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ترقی اور زوال ایک مسلسل چکر کی صورت میں آتے ہیں۔ کوئی قوم ایک دن میں عروج پر نہیں پہنچتی اور نہ ہی ایک رات میں زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہوتا ہے جس میں انسانی کردار، معاشرتی اقدار اور ریاستی اداروں کی حالت آہستہ آہستہ بدلتی ہے۔ جب اخلاقیات، انصاف اور انسانی ہمدردی جیسی بنیادی اقدار کمزور پڑ جائیں تو زوال کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ انسان فطری طور پر عقل و شعور رکھتا ہے، لیکن یہ شعور اس وقت کارآمد بنتا ہے جب ماحول اس کی تربیت مثبت انداز میں کرے۔ تاریخ کی گردن پر لکھا ہوا ایک ایسا باب جسے پڑھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے، وہ ہے بہادر شاہ ظفر کی داستان۔ یہ داستان صرف ایک شخص یا ایک بادشاہ کی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب، ایک سلطنت اور ایک قوم کے خوابوں کی بربادی کی ہے۔ مغل سلطنت کا آخری چراغ جب مدھم ہوا تو اس کے ساتھ ہندوستان کی سیاسی خودمختاری کے چراغ بھی بجھ گئے۔
بہادر شاہ ظفر خود کوئی عظیم فاتح یا ماہر حکمران نہ تھے۔ مگر وہ ایک شاعر دل اور روح کے انسان تھے۔ انہوں نے دہلی کے دربار کو صرف سیاسی نہیں بلکہ ادبی مرکز بنا دیا۔ غالب، ذوق، مومن اور داغ جیسے اساتذہ ان کے دربار کی رونق تھے۔ لیکن انگریز سامراج کے بڑھتے پنجے اور مغل سلطنت کی اندرونی کمزوریوں نے بہادر شاہ ظفر کو محض ایک علامتی بادشاہ بنا کر چھوڑ دیا۔ دہلی کی گلیوں میں ان کا اختیار محدود تھا، اور ہندوستان کی سیاست پر انگریز کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔ 1857ء کی بغاوت ایک ایسی آگ تھی جس میں ہندوستانی عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کی۔ ہندو اور مسلمان سپاہی انگریز کے خلاف متحد ہوئے اور بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما مانا۔ اگرچہ وہ خود جنگی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر عوام نے ان کی شخصیت میں ایک علامتِ مزاحمت دیکھی۔ دہلی کے کوچوں میں آزادی کے نعرے بلند ہوئے، توپوں کی گھن گرج سنائی دی اور انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ مگر اس بغاوت کا انجام المناک ہوا۔ دہلی اجڑ گئی، بازار ویران ہو گئے، ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے انگریز نے ان پر غداری کا مقدمہ چلایا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہندوستان کی قسمت غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دہلی کی شاہانہ فضا میں رہنے والا بادشاہ اب رنگون کے قید خانے کا اسیر بنا دیا گیا۔ انگریز چاہتے تھے کہ ہندوستانی عوام کو یہ سبق دیا جائے کہ جو ان کے خلاف آواز بلند کرے گا، اس کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ چنانچہ مغل بادشاہ کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا۔ رنگون کا قید خانہ بہادر شاہ ظفر کی زندگی کا سب سے المناک باب ہے۔ ایک وقت کا بادشاہ، جس کے دربار میں مشاعرے ہوتے تھے، اب تنہائی اور کسمپرسی کا شکار تھا۔ نہ شاہانہ لباس، نہ خدام کی حاضری، نہ شہنشاہی وقار، بس ایک کچا سا کمرہ اور اداس دیواریں۔ ان کے دل سے نکلی وہ درد بھری صدا آج بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ ہے
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ محض ایک شعر نہیں بلکہ پوری سلطنتِ مغلیہ کے زوال کی نوحہ گری ہے۔ بہادر شاہ ظفر 87برس کی عمر میں رنگون کے اسی اجڑے کمرے میں دم توڑ گئے۔ ان کی قبر بھی گمنام رہی، نشان تک نہ لگایا گیا تاکہ آنے والی نسلیں ان سے حوصلہ نہ لیں۔ بہادر شاہ ظفر کے بعد ان کی اولاد در بدر ہو گئی۔ کچھ رنگون میں غربت کے عالم میں فنا ہو گئے، کچھ گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کی نسل نہ اقتدار دیکھ سکی نہ عزت، بلکہ ایک ایسا صدمہ جھیلا جو نسلوں تک نقش ہو گیا۔ آج بھی ان کے خاندان کے کچھ لوگ میانمار اور بھارت میں معمولی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی شہنشاہی وقار، کوئی جاہ و جلال باقی نہ رہا۔
اگر بہادر شاہ ظفر کی کہانی پر غور کیا جائے تو اس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے حکمران بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر عوام سے دور ہیں۔ شاہانہ محلات، عالیشان گاڑیاں اور بیرونی بینک اکائونٹس ان کی پہچان بن چکے ہیں۔ لیکن عوام کے لیے مہنگائی، بے روزگاری اور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی عوامی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ایک طبقہ اپنی نسل در نسل حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہے۔ عام آدمی کی حالت روز بہ روز ابتر ہو رہی ہے۔ یہی وہ بے حسی ہے جو قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ عوام آج بھی سوال کر رہی ہے کہ کب حکمران ان کے دکھ درد کو سمجھیں گے؟ کب ایوانِ اقتدار سے نکل کر گلی محلوں کی آواز سنی جائے گی؟ پاکستان کا عام شہری بھی اسی کسمپرسی میں جکڑا ہے جس میں رنگون کی قید میں بہادر شاہ ظفر تھے۔ فرق یہ ہے کہ وہ ایک غلام قوم کے بادشاہ تھے اور ہم ایک آزاد ملک کے عوام ہیں، مگر ہماری حالت پھر بھی غلاموں جیسی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت اور حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔ اگر حکمران عوام کی خدمت چھوڑ دیں، ان کے درد کو نہ سمجھیں اور ذاتی عیش و آرام میں ڈوب جائیں تو تاریخ انہیں عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔ آج پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے زوال سے سبق سیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل عوام ان کے محلات کو بھی ویران کر دیں اور ان کے نام بھی تاریخ کے قبرستان میں گم ہو جائیں۔

جواب دیں

Back to top button