CM RizwanColumn

جگائے گا کون؟

جگائے گا کون؟
کالم برائے سیاست
تحریر: سی ایم رضوان
پچھلے سات آٹھ سال سے ملک کے تمام تر چھوٹے بڑے، جھوٹے سچے میڈیا ہائوسز کی نظر میں پاکستان کے تمام تر معاملات سے بڑا اور قابل ذکر معاملہ صرف اور صرف عمران پراجیکٹ بنا ہوا ہے۔ یوں جس طرح اس پراجیکٹ کے بانی سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کل پرزے تک، کی، کسی کی بات اور کردار میں کوئی سنجیدگی، وزن اور حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح اس پراجیکٹ کو لے کر میڈیا پر ہونے والا ہر تبصرہ، تجزیہ اور پیغام بھی کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ اس نوعیت کی ہر بات اب یکسانیت، تکرار اور فضولیات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن چونکہ اس پراجیکٹ پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے لہٰذا اس پر بات کرنا ہر بڑے سے بڑے اینکر اور سینئر ترین صحافی کی ایک طرح سے ذمہ داری بنی ہوئی ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے چکر میں یہ صحافی اصل صحافت یعنی پبلک ایشوز تک کو بھول بیٹھے ہیں اور ہر وقت اسی پراجیکٹ کے مرے ہوئے سانپ کو پیٹتے رہتے ہیں، دوسری بات یہ کہ کیونکہ یہ عظیم صحافی، تجزیہ کار اور قلمکار بڑے تجربہ کار اور ماہر ہیں اس لئے وہ اس روزانہ کی ذمہ داری کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر اور نت نئے انداز دے کر دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے ایک سینئر ترین تجزیہ کار اور کھلے تضادات کا ذکر کرنے والے صحافی کے بانی پی ٹی آئی سے متعلق پچھلے سال ڈیڑھ سے نشر ہونے والے تبصرے اور شائع ہونے والی تحریریں نکال کر دیکھیں تو وہ بانی پی ٹی آئی کو یہی مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ خاموشی اور تابعداری اختیار کر کے تھوڑا وقت نکال لیں تو ان کی سہولیات انہیں واپس مل جائیں گی۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے یہ مشورہ صادر فرمایا ہے لیکن شرطیہ نئے پرنٹوں اور نئے حالات و واقعات کا سرخی پائوڈر لگانا وہ یکسر نہیں بھولے اور مشورے کو دلچسپ کر اپنے ایک تازہ کالم میں شائع کیا ہے۔ اس تحریر میں وہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پیامبر کا کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان کو خاموشی اختیار کرنے اور رہائی پانے کا نایاب مشورہ دے رہے ہیں۔ صرف اس کالم میں ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہ گزشتہ ایک سال سے جب سے انہیں یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان اب مقتدرہ کے لاڈلے نہیں رہے۔ مذکورہ کالم میں موصوف کالم نویس نے برسلز میں اوورسیز پاکستانیوں کی اس استقبالیہ تقریب کا ذکر کیا ہے جس میں ان سے گفتگو کے دوران سوالات کے جواب میں آرمی چیف نے کہا تھا کہ تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں، یہ افواہیں پھیلانے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف ہیں۔ خدا نے مجھے اس ملک کا محافظ بنایا ہے، اس کے سوا مجھے کسی عہدے کی خواہش نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں فیلڈ مارشل نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔ آرمی چیف نے سیاسی مصالحت پر سوال کے جواب میں قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تخلیق آدم کے بعد ابلیس کے سوا سب نے آدم کی سیادت کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کیا، معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے سوالات کے جواب مین وزیراعظم شہباز شریف کی وطن عزیز کیلئے ان تھک محنت پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کے خلوص کے ساتھ دن میں 18گھنٹے کام کرنے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے جنگ کے دوران جس عزم کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔
آرمی چیف کے اعزاز میں برسلز میں اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے منعقد کی گئی تقریب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا جنگ کے فاتح کی حیثیت سے فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اس تقریب میں دیارِ غیر میں مقیم نمایاں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد شریک تھی۔ سب ہی چھ مئی کی جنگ کے فاتح سے ہاتھ ملانے کے لئے بے تاب تھے۔ فیلڈ مارشل کئی گھنٹے کھڑے رہ کر پاکستانیوں سے ملتے رہے
ان کو دیکھنے کے لئے دور دور سے سفر کر کے برسلز آنے والے پاکستانیوں نے اپنے ہیرو کے انکسار کی تعریف کی۔ جب تک تقریب میں شریک آخری پاکستانی آرمی چیف سے ہاتھ ملا کر رخصت نہیں ہوا وہ اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔
ان تمام امور کا ذکر کئے بغیر مذکورہ کالم میں سے جو امر واضح اور اہم معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ عمران خان کو خاموشی سے کمپرومائز کی پالیسی پر چل کر ریلیف لینا چاہئے اور بس۔
اس وقت ملک میں کافی حد تک آئینی نظام کام کر رہا ہے اور آرمی چیف کے علاوہ آئی ایس پی آر کے سربراہ متعدد بار اعادہ کر چکے ہیں کہ وہ اس انتظام کے حامی ہیں اور اسے تبدیل کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ ملک کی اہم سیاسی پارٹیاں بھی مل جل کر شہباز شریف کی قیادت میں پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت حکومت کر رہی ہیں۔ صرف ایک سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اس حکومت کو ان معنوں میں جعلی قرار دیتی ہے کہ اس کے خیال میں گزشتہ سال فروری میں ہونے والے انتخابات دھاندلی زدہ تھے اور ان کے تحت قائم ہونے والی حکومت ناجائز ہے۔ اس کے خیال میں اسے عوام کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کر کے، اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف لے کر اور حال ہی میں سینیٹ انتخابات میں باقی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے، درحقیقت موجودہ نظام کے تسلسل کو تقویت دی ہے بلکہ اس کے جائز ہونے کی سند بھی فراہم کی ہے۔ ان حالات میں ملک میں جمہوری روایات کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گو کہ میڈیا انسانی، آئینی و جمہوری روایات کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں بھی ہے لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی لا یعنی ٹرولنگ کا بھی حصہ بن رہا ہے حالانکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی اور اب اس کے سارے کے سارے شور اور واویلا کرنے کا مقصود و منتہا صرف یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے لئے اسی طرح کی سہولت کاری کرے جس طرح کہ ماضی میں کی گئی یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل باجرہ اس سہولت کاری سے توبہ کر چکے تھے تب سے ہی اس پارٹی نے خود کو آنٹی اسٹبلشمنٹ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش شروع کر رکھی ہے مگر موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر تو کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ وہ صرف وہی اقدام کریں گے جو ملک، قوم اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہے وہ سیاسی بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے ملک کی معیشت، خارجہ امور اور عسکری وقار کے لئے کام کو ترجیح دیتے ہیں مگر ان پر بیجا الزامات لگا کر اور تنقید کر کے پی ٹی آئی کے عشاق جھوٹے انقلاب کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یوں آزادی رائی کو صرف سرکاری اقدامات نے ہی پابند سلاسل نہیں کیا بلکہ صحافیوں میں نظریاتی تقسیم اور مفادات کے حصول کی دوڑ کی وجہ ایسی آوازیں خال خال ہی سنائی دیتی ہیں جو معتدل انداز میں ملک میں آئینی انتظام جاری رکھنے کے لئے دلیل دیں اور حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کو محبت کی دعوت دینے والے انقلابیوں کے اصل کردار کیا ہیں۔ یہ بھی یاد کرانا ضروری ہے کہ آزاد صحافت پر پہلا حملہ بلاشبہ تحریک انصاف کی پیدا کردہ نظریاتی تقسیم کی صورت میں دیکھنے میں آیا تھا۔ اس میں تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی جمہوری سیاسی نظام میں سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے صحافی بھی کسی ایک خاص سیاسی نقطہ نظر سے متاثر ہوں اور اس کی ترویج کے لئے جولانی قلم دکھائیں۔ البتہ تحریک انصاف کا علم بلند کرنے والے میڈیا عناصر نی صحافت میں پراپیگنڈے، جھوٹ، نفرت اور مخالفین کی کردار کشی کا طریقہ اختیار کر کے اس اہم شعبہ کو آلودہ کیا ہے۔ تاہم اس سیاسی طرز عمل سے گریز کرنے والے بیشتر صحافیوں نے شفافیت سے متوازن نقطہ نظر عام کرنے کا فرض نبھانے کی بجائے، ایسے راستے تلاش کیے جن کے ذریعی ان کا طوطی بولتا رہے۔ یوم پاکستان پر سرکاری اعزاز پانے والے صحافیوں کی طویل فہرست سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسے ملک میں صحافت کو اقتدار کی راہداریوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ ایک مخصوص صحافتی حلقے نے حالیہ ایام میں پہلے یہ نظریہ راسخ کرنے کی کوشش کی کہ شہباز شریف کی حکومت ختم ہو رہی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے جو کام لینا تھا، وہ لیا جا چکا ہے۔ انہوں نے خود سے ہی اس کا یہ حل تجویز کیا کہ حکومت اور تحریک انصاف مل بیٹھیں اور اقتدار میں حصہ داری کا کوئی اصول وضع کر لیں تاکہ سیاسی نظام کام کرتا رہے۔ ’’ اندر کی یہ خبر‘‘ عام کرنے کے بعد جب برسلز میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے جب اس فرضی تبدیلی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ اس تبدیلی کی بات کرنے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے دشمن ہیں۔ اب اس کے آگے اس معاملے پر بات کی گنجائش ہی نہیں رہتی مگر کیا کریں صاحب نوکری جو کرنی ہے۔ لہٰذا یہ کالم برائے سیاست سامنے آ گیا۔

جواب دیں

Back to top button