عنوان: قدرت کا انتباہ اور ہماری غفلت

از : راؤ بلال
بارش کبھی زندگی کا پیام لاتی ہے اور کبھی بربادی کا۔ قدرت کے اس کھیل نے ایک بار پھر پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خیبرپختونخوا کے پہاڑی سلسلے ہوں یا پنجاب کے میدانی علاقے، حالیہ بارشوں نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ موسمی تغیرات اب ایک تلخ حقیقت ہیں جن سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی ریلے صرف چند گھنٹوں میں بستیاں بہا لے گئے، سینکڑوں خاندان اجڑ گئے اور قیمتی جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔ یہ منظر نامہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اس بڑے بحران کا تسلسل ہے جسے دنیا کلائمیٹ چینج کے نام سے جانتی ہے اور ہم برسوں سے نظرانداز کرتے آ رہے ہیں۔
پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جس نے کلائمیٹ چینج کی سنجیدگی کو نہیں سمجھا پاکستان کے ساتھ اس حمام میں اور بھی بہت سے ملک ننگے ہیں، میری تمام تر توجہ کا مرکز ملک خداد ہے۔ مجھے یاد ہے لاہور میں موجود ایف-سی کالج میں آئی سی اے کے اشتراک سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کی کئی تھی مجھے بھی اس تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا ۔میں اس تقریب میں اس لیے شامل ہوا کیونکہ میں ایف-سی کالج کا طالبعلم ہوں۔اس تقریب میں بہت سے پڑھے لکھے لوگ موجود تھے اور وہ پاور پوائنٹ کے ذریعہ موسمیاتی تبدیلی پر ایک رپورٹ پیش کر رہے تھے اور موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے آگاہ کر رہے تھے۔
اس تقریب کے دروازہ کے باہر کچھ فلیکس آویزاں تھے جس پر لکھا تھا کہ کیسے گزشتہ ایک سال میں بڑے اینکرز نے موسمیاتی تبدیلی کو غیر سنجیدہ سمجھتے ہوئے ایک یا دو پروگرامز اس حوالے سے کیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہ لینے میں سب سے بڑا کردار ہمارا(میڈیا) کا ہے۔ ہم پاکستان میں ہوئے کسی ایک چھوٹے سے واقع پر لب کشائی سے اجتناب نہیں کرتے لیکن جب باری آتی ہے ایک ایسے مسئلہ کی جس پر ساری دنیا کام کر رہی ہے تو ہماری(میڈیا)کی ترجیح یہ معاملہ نظر نہیں آتی۔سارے گناؤں کا بوجھ حکومتوں پر نہیں ڈالا جا سکتا کچھ ذمہ داری ہمیں(میڈیا)کو بھی اٹھانی چاہیے۔
کلاؤڈ برسٹ کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ بادل اچانک پھٹ کر اس شدت سے برسیں کہ زمین پر سنبھلنے کی مہلت ہی نہ ملے۔ چند لمحوں میں ندی نالے طوفان کا روپ دھار لیتے ہیں اور پہاڑی ڈھلوانیں سرکنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات اور ملاکنڈ جیسے علاقے بارہا اس کے شکار ہوئے ہیں۔ ماہرین برسوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کاربن کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ ہمیں ہی سہنے پڑ رہے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے اب تک کیا سیکھا؟ ہر بار بارش آتی ہے، تباہی ہوتی ہے، حکومتیں امدادی کیمپ لگاتی ہیں، چند دن بعد سب بھول جاتے ہیں۔ مگر قدرت ہر بار ہمیں جھنجھوڑ کر یہ احساس دلاتی ہے کہ آئندہ خطرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ ہمارے شہروں کی غیر منصوبہ بندی، پہاڑوں کی بے دریغ کٹائی، دریاؤں کے کناروں پر آبادی اور نالوں کی بندش ہماری اپنی غلطیاں ہیں جو ان آفات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم حادثے کے بعد نوحہ خوانی کے بجائے پیش بندی کریں۔ شجرکاری کو سنجیدگی سے اپنایا جائے، نشیبی علاقوں میں تعمیرات کو روکا جائے، مقامی حکومتوں کو وارننگ سسٹم اور ایمرجنسی پلاننگ سے لیس کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو بنیادی ماحولیاتی شعور دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بہتر طور پر ان حالات سے نمٹ سکیں۔ یہ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحول دوست رویہ اختیار کرے۔
کے پی کے،گلگت بلتستان ،کشمیر میں آنے والے سیلاب کے نتیجہ میں پاکستان میں موجود تمام حکومتیں کے پی کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔وہیں کے پی کے وزیراعلیٰ نے سیاسی انا پسندی کا مظاہرہ کیا۔میں اس کالم میں سیاسی تنقید نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن عادت سے مجبور وزیر اعلیٰ نے بیان دیا تو میرا ہاتھ ان پر تنقید کیے بغیر نا رہ سکا۔انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ بھیک نہیں مانگیں گے مدد کی پیشکش ہر گز بھیک کے ضمرے میں نہیں آتی۔
آج خیبرپختونخوا میں بہتے ہوئے آنسو دراصل پورے پاکستان کے لیے پیغام ہیں۔ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں اور رویوں کو نہ بدلا تو کل یہی پانی ہمارے بڑے شہروں اور معیشت کو بھی بہا لے جائے گا۔ بارش کو محض عذاب کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک انتباہ ہے کہ زمین اور فطرت سے بے وفائی کا انجام کیا ہوتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ زمین اپنی زبان میں جواب دیتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ قدرت کی عطا کردہ زمین کو محفوظ رکھنا ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے۔







