Column

مطالعے کا موجد کون تھا ؟

مطالعے کا موجد کون تھا ؟
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ہم بچپن سے کتابیں پڑھتے آرہے ہیں۔ روز مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ مطالعہ یعنی یہ پڑھنے، سیکھنے اور غور و فکر کی یہ عادت، آخر کب کس کی ایجاد ہے ؟ کیا یہ بھی کسی سائنس دان کی لیبارٹری سے نکلی؟ یا کسی فلسفی کی سوچ کا نتیجہ تھی؟ اگر اس فکر انگیز سوال کو فلسفیانہ، نفسیاتی اور تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مطالعہ کسی ایک انسان یا قوم کی ایجاد نہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت اور عقلِ جستجو کا لازمی اظہار ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ مطالعہ کسی ایک فرد یا سائنسدان کی ’’ ایجاد‘‘ نہیں بلکہ انسان کی فطری جبلت ہے۔ بچہ جب پہلی بار ماں کے چہرے کو دیکھتا ہے، تو وہ مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ جب کوئی انسان خوابوں میں معنی تلاش کرتا ہے، تو وہ مطالعہ ہی ہے۔ انسان جب پہلی بار آسمان کی وسعتوں میں جھانکا، جب اس نے بجلی کی کڑک سنی، یا پانی کے بہائو کو محسوس کیا، تو دراصل وہ پہلا ’’ مطالعہ‘‘ کر رہا تھا۔ مطالعہ محض کتاب کھولنے کا عمل نہیں، بلکہ کائنات کو پڑھنے، علامتوں کو سمجھنے اور حقیقت تک رسائی کی جستجو کا نام ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو مطالعے کا آغاز اس وقت ہوا جب انسان نے پہلا ’’ سوال‘‘ کیا۔ بہت پرانے وقتوں کی بات ہے، جب انسان ابھی پتھروں پر نقش و نگار بنایا کرتا تھا۔ درخت کے پتوں ، جانوروں کے چمڑوں پر لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ تب نہ کوئی کتاب تھی، نہ کوئی قلم، نہ کوئی اسکول۔ لیکن ایک دن، ایک انسان نے چاند کو دیکھا، ستاروں کی روشنی کو محسوس کیا، اور دل میں سوال جاگا۔ ’’ یہ سب کیسے ہوا ؟‘‘، یہی سوال انسان کو علم کی تلاش کی طرف لے گیا۔ وہ ہر نشان، ہر واقعے، ہر تجربے کو یاد رکھنے لگا۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی باتیں پتھر پر کندہ کرنے لگا، پھر درختوں کی چھال پر لکھنے لگا۔ اور یوں انسان نے پہلا مطالعہ اپنے آپ سے کیا۔ کائنات کا مطالعہ۔ پتھروں پر تصویریں بنانا (Petroglyphs)دراصل مطالعے کی پہلی شکل تھی۔ غاروں کی دیواروں پر بنی ہوئی تصویریں، جانوروں کے خاکے اور شکار کے مناظر ایک ’’ بنیادی مطالعہ‘‘ کا حصہ تھے۔ تقریباً پانچ ہزار سال پہلے، قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا میں لوگوں نے تحریر کو ترتیب دینا شروع کیا۔ ’’ خط‘‘ ایجاد ہوا۔ ان کے ’’ کیونفورم‘‘ (Cuneiform) رسم الخط نے مطالعے کو ایک باقاعدہ شکل دی۔ مصر کے ہائروگلیف (Hieroglyphs) نے مطالعے کو مذہب اور ریاستی نظام سے جوڑ دیا۔ یونان میں ارسطو، افلاطون اور سقراط نے مطالعے کو فلسفیانہ بنیاد دی۔
قرآن کی پہلی وحی اقراء ( پڑھ) دراصل مطالعے کے کائناتی حکم کی علامت ہے۔ بیت الحکمہ (House of Wisdom) بغداد میں مطالعہ صرف کتابوں تک محدود نہ تھا بلکہ فلکیات، طب اور فلسفے کی گہرائیوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ابنِ سینا کی ’’ القانون فی الطب‘‘ اور الفارابی کی فلسفیانہ تحریریں مطالعے کی معراج تھیں۔ مطالعہ صرف معلومات جمع کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک وجودی (Existential)جستجو ہے۔ کتابیں اور تحریریں تو مطالعے کی مادی شکل ہیں، مگر مطالعہ خود روح کی تلاش ہے۔ سقراطی فلسفہ کہتا ہے کہ’’ غیر مطالعہ شدہ زندگی جینے کے لائق نہیں‘‘۔ ارسطو کے مطابق، مطالعہ عقل کو حقیقت کے قریب کرتا ہے۔ مسلم فلسفیوں کے نزدیک، مطالعہ حقیقتِ مطلقہ (Ultimate Reality) یعنی خدا کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ارسطو Aristotle) یونان کا وہ فلسفی تھا جو صرف کتابیں ہی نہیں پڑھتا تھا، بلکہ ان پر سوچتا، سوال کرتا اور نئے خیالات پیدا کرتا۔ اس نے اپنے شاگرد سکندرِ اعظم کو بھی یہی سکھایا۔ ’’ علم حاصل کرو، کیونکہ علم ہی طاقت ہے‘‘۔ اسی طرح مسلمانوں کے سنہری دور میں ابنِ سینا، الفارابی، اور ابنِ رشد جیسے علما نے مطالعے کو نئی بلندیاں دیں۔ ان کے مطالعے نے سائنس، طب، اور فلسفے کو بدل کر رکھ دیا۔ مطالعہ کسی ایک انسان کی ایجاد نہیں، بلکہ ہم سب کا فطری عمل ہے۔ ہر بچہ، جب پہلی بار آسمان کی طرف دیکھتا ہے، یا کسی تتلی کا پیچھا کرتا ہے۔ وہ دراصل مطالعہ ہی کر رہا ہوتا ہے۔ مطالعہ صرف کتابوں کا نہیں، زندگی کا بھی ہوتا ہے۔ کسی بزرگ کی آنکھوں میں چھپی کہانی، کسی بچے کی بے ساختہ مسکراہٹ۔ یہ سب مطالعے کے خزانے ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ مطالعہ کیا دیتا ہے؟ تو جواب ہوگا۔ ایک نئی سوچ، ایک نئی آنکھ۔ ایک ایسی آنکھ، جو لفظوں میں چھپے خواب دیکھتی ہے، اور حقیقت کو بہتر بنانے کی طاقت دیتی ہے۔ مطالعہ ایجاد نہیں یہ تو ایک چراغ ہے، جو کتابوں کے ساتھ صدیوں سے انسان کے دل میں جل رہی ہے۔ مطالعہ ہمیں ظاہر (Phenomena)سے باطن (Noumena)تک لے جاتا ہے۔ یعنی ہم اشیاء کو صرف جیسا وہ دکھتی ہیں ویسا نہیں پڑھتے، بلکہ اس کے پسِ منظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے مطالعہ تین سطحوں پر ہوتا ہے
1۔ ادراکی سطح (Cognitive Level) دماغ الفاظ اور علامات کو پہچانتا ہے۔
2۔ تخیلی سطح (Imaginative Level) انسان لفظوں سے معنی اور تصویریں تخلیق کرتا ہے۔
3۔ وجودی سطح (Existential Level)مطالعہ انسان کی ذات اور کائنات کے درمیان رشتہ قائم کرتا ہے۔
مطالعہ دماغ میں نیورونل نیٹ ورکس کو مضبوط کرتا ہے، جس سے نہ صرف یادداشت بہتر ہوتی ہے بلکہ تنقیدی سوچ اور تخیل بھی پروان چڑھتا ہے۔
مطالعہ ہمیں پانچ بڑے تحائف دیتا ہے
1۔ نئی آنکھ، جو حقیقت کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکے۔
2۔ نئی سوچ، جو پرانی حدود کو توڑ سکے۔
3۔ نئی معلومات، جو علم میں اضافہ کرتا ہے۔
4۔ نئی طاقت، جو علم کو عمل میں ڈھال سکے۔
5۔ ماضی کا علم، جو تاریخ کے تجربات سے بہت کچھ سکھاتا ہے۔
مطالعہ ایک ایسا چراغ ہے جو ہزاروں سال سے پتھروں سے کتابوں اور کتابوں سے ڈیجیٹل صفحات تک جلتا آرہا ہے۔ اگر انسانیت مطالعہ چھوڑ دے تو وہ تاریکی میں لوٹ جائے گی۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مطالعے کا موجد جستجو اور ’’ سوال‘‘ ہے، اور اس کا مقصد ’’ حقیقت کی تلاش‘‘ ہے

جواب دیں

Back to top button