Column

تھرڈ امپائر

تھرڈ امپائر
تباہ کن موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان
تحریر: محمد ناصر شریف
’’بادلوں کا پھٹنا ‘‘ کلائوڈ برسٹ کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے دوران 200ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی، یہ صورت حال عموماً پہاڑی علاقوں میں شدید گرج چمک کے ساتھ ہوتی ہے، جس سے سیلابی ریلے اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسدان اس حوالے سے دلیل دیتے ہیں کہ زمین اور بادلوں کے مابین موجود گرم ہوا کی لہر، بادلوں کو فوری نمی برقرار رکھنے سے روک دیتی ہے جب دبائو ناکافی ہوتا ہے تو بادل سے پانی اچانک بڑی مقدار میں گر کر کلائوڈ برسٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے اس عمل کی شدت میں اضافہ کردیا ہے، کیونکہ بدلتے موسم اور نمی کی مقدار پہلے کی نسبت کہیں ہے۔ رواں سال پاکستان میں مون سون سیزن کے دوران چکوال، حیدرآباد، گلگت، اور چلاس سمیت مختلف مقامات پر کلائوڈ برسٹ کے سنگین اثرات سامنے آئے ہیں۔ چکوال میں ایک کلائوڈ برسٹ کے باعث 423ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جبکہ حیدرآباد میں تقریباً 70فیصد گلیاں پانی کی لپیٹ میں آگئیں۔ گلگت کے چلاس میں شاہراہ بابو سر پر سیلابی ریلے نے 19سیاحوں کی جان لے لی اور کئی گاڑیاں بہہ گئیں۔ آزاد کشمیر، گلگت اور خیبرپختونخوامیں بارشوں ،کلائوڈ برسٹ ، لینڈ سلائڈنگ اور آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات میں اموات کی تعداد 650سے زائد ہوگئی ہے، 200سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر تباہی کی داستان بنا ہوا ہے، متاثرہ علاقوں میں ہر جگہ ملبے کا ڈھیراورتباہی کے المناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بونیر کے ڈپٹی کمشنر کاشف قیوم نے کے مطابق تباہی کی شدت خوفناک ہے، اب تک 401ہلاکتیں، 671زخمی اور 4ہزار 54 مویشیوں کے نقصان کی تصدیق ہو چکی ہے، 2300مکانات مکمل ، 413جزوی تباہ، 6سرکاری اسکول ، دو تھانے اور 639گاڑیاں بہہ گئیں، 217دکانیں مکمل اور 824جزوی متاثر ہوئے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا اور پورا ملک ایک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہِ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلائوڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ 1992ء سے اب تک جنگلات کا رقبہ 18فیصد کم ہو چکا ہے جبکہ چراگاہیں صرف 20سے 30فیصد تک اپنی ممکنہ بائیو ماس پیدا کر رہی ہیں، جس میں خیبرپختونخوا کا حصہ زیادہ ہے ۔ 1992ء ، 2010ء اور 2025ء کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو ’’ سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں بدل دیا ہے۔ پاکستان کیلئے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں، یہ بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے ہیں، زیر زمین پانی ری چارج کرتے ہیں زرعی زمین کو کٹائو سے بچاتے ہیں اور معیشت کیلئے پانی اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھتے ہیں درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور کاربن ذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ دیہی آبادی کیلئی چارہ، ایندھن، پھل، دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ملک کو سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور قحط جیسے خطرات سے بھی بچاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگر فوری طور پر بحالی اور مضبوط اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کو بڑے ماحولیاتی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ موثر پالیسی اور عملدرآمد ملک کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ1992ء میں 3.78ملین ہیکٹر سے کم ہو کر2025ء میں 3.09ملین ہیکٹر ہو چکا ہے یعنی جنگلات کے رقبے میں 18فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ سالانہ جنگلات کی کٹائی 1992ء میں ریکارڈ تقریباً 40ہزار ہیکٹر تھی، لیکن حکومت کی مداخلت اورپابندیوں کے باعث کم ہوکر 2025ء میں 11ہزار ہیکٹر سالانہ ہوگئی ہے لیکن صورت حال اب بھی تشویشناک ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی 11ہزار ہیکٹر کی کٹائی جاری ہے۔ چراگاہوں کا رقبہ 60سے کم ہو کر 58فیصد ہوگیا ہے چراگاہوں کی بائیو ماس پیداوار 100ممکنہ پیداوار سے کم ہو کر 20فیصد رہ گئی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992ء سے 2009ء کے درمیان 3700ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہو گئے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ 2030ء تک مزید 23فیصد کمی متوقع ہے۔ ارندو گول میں لکڑی کی چوری کے دوران 16لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس ہے۔ کالام ، سوات میں 1980 ء اور 1990 ء کی دہائی میں بڑے پیمانے پر لکڑی کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریا کو شدید نقصان پہنچا، جس نے 1992ء اور 2010ء کے سیلابوں کو مزید تباہ کن بنا دیا۔
جنگلات کی کٹائی اب بھی ڈھلوانوں کو کمزور اور اچانک آنے والے سیلاب کے خطرات کو بڑھا رہی ہے۔ یہ تباہی صرف چند اضلاع تک محدود نہیں۔ بونیر میں اگست 2025ء کے کلائوڈ برسٹ نے اچانک آنے والے سیلاب کو جنم دیا جس نے گھروں، کھیتوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ علاقے کو جنگلات سے محروم کردیا، پہاڑ بارش کے پانی کو روک نہ سکے۔ بٹ گرام میں نازک اراضی ڈھانچے اور جنگلات کی کٹائی نے لینڈ سلائیڈز کو جنم دیا، جنہوں نے قراقرم ہائی وے بند کر دی اور شمالی پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ باجوڑ میں 2025ء کے ایک مہلک کلائوڈ برسٹ سیلاب نے جانی نقصان کیساتھ ساتھ سڑکیں اور پل بہا دیئے۔ مانسہرہ میں بار بار کلائوڈ برسٹ سے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈز آئے، جبکہ گلگت بلتستان میں جنگلات کا رقبہ 4فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے جس سے یہ خطہ جنگلاتی آگ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کیلئے نہایت حساس ہو گیا ہے۔ جنگلات بارش کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زیرِ زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور ڈھلوانوں کو مستحکم بناتے ہیں۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو ننگی پہاڑیاں جنگلوں سے ڈھکے علاقوں کے مقابلے میں 5سے 8ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں، جس سے مون سون کی ہوائیں تیزی سے بلند ہو کر اچانک کلائوڈ برسٹ پیدا کرتی ہیں بجائے اس کے کہ مسلسل بارش ہو۔ جڑوں کے بغیر مٹی کو سہارا نہیں ملتا اور لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے عام ہو جاتے ہیں، جبکہ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تباہی براہِ راست انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک تہائی گھرانے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں لیکن چراگاہوں کی پیداواریت بے جا چرائی اور بدانتظامی کے باعث صرف 20سے 30فیصد رہ گئی ہے۔ جو خاندان پہلے جنگلات سے چارہ اور ایندھن حاصل کرتے تھے وہ اب مزید غیر پائیدار طریقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف شجرکاری مہمات اس بحران کو حل نہیں کر سکتیں جب تک ٹمبر مافیا کیخلاف سخت کارروائی اور ملوث اہلکاروں کا احتساب نہ کیا جائے۔
کلائوڈ برسٹ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہورہے ہیں کیونکہ گرم ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے، جو ان برساتی ریلوں کو بھاری بنادیتی ہے۔ ایسے واقعات کی بروقت پیشگوئی ناممکن ہے۔گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے کئی عالمی کوہ پیما اپنی مہمات شروع نہ کرسکے، دو غیر ملکی کوہ پیما جان کی بازی ہار گئیں، یہ سب گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلائو اور برفانی تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ ندی نالوں کے پاس تعمیرات سے گریز، محفوظ راستوں کی بحالی، بہتر ڈرینیج اور جنگلات کی افزائش جیسے اقدامات سے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button