جنرل ضیاء الحق کی آغا ذوالفقار سے آخری بات چیت

جنرل ضیاء الحق کی آغا ذوالفقار سے آخری بات چیت
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
رائو اقبال خان ان دنوں اے ایس پی مری تعینات تھے۔ میرا کلاس فیلو چودھری عبدل سلیم تھانہ مری میں سب انسپکٹر تھا ۔ 17اگست کو رائو اقبال خان اور سلیم کی ڈیوٹی چک لالہ کے آرمی ایئر بیس پر لگی تھی۔ عبدل سلیم کے مطابق وہ صبح ساڑھے سات بجے کے قریب آرمی ائر بیس پہنچ چکے تھے۔ صدر مملکت شہید جنرل ضیاء الحق کی کار آرمی ایئر بیس پہنچی جس کے بعد صدر اپنے چیف سیکیورٹی آفیسر آغا ذوالفقار کے قریب آئے تو انہوں نے سیلیوٹ کیا۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے ان سے کہا آغا صاحب آپ رک جائیں، یہ میرا آرمی کا وزٹ ہے، سول وزٹ تو نہیں ہے، جس کے بعد صدر مملکت طیارے میں سوار ہونے کے لئے چل پڑے۔ صدر جنرل ضیاء الحق کی شہادت کو 37برس گزر چکے ہیں، لیکن ان کے چاہنے والوں کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اتوار کو ان کی برسی تھی، شہید کے بڑے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے مجھے بھی دعوت نامہ بھیجا تھا۔ شہید کی برسی کی تقریب میں شرکت کا میرے لئے یہ پہلا موقع تھا۔ یقین کریں پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ، فیصل آباد، بہاولنگر اور فورٹ عباس کے علاوہ دیگر کئی شہروں سے قافلے راولپنڈی کی آرٹس کونسل کی طرف رواں دواں تھے، ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا مرد حق مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے والے احمد رضا قصوری پیرانہ سالی کے باوجود ہال میں موجود تھے۔ پنجاب کے شہروں سے آنے والے کئی ہزار افراد پہنچ چکے تھے، برسی کی تقریب میں شرکت کرنے والے افغان باشندوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ دراصل افغان پناہ گزیں شہید ضیاء الحق کو اپنا محسن سمجھتے ہیں، پھر اس میں شک والی کوئی بات بھی نہیں، جنرل ضیاء الحق چاہتے تو ایک افغان شہری پاکستان میں پناہ نہیں لے سکتا تھا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور سردار عبدالقیوم کے فرزند سردار عتیق الرحمان ، سابق رکن قومی اسمبلی انوار الحق رامے، جنرل ضیاء الحق کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق ، احمد رضا قصوری، جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل اور دیگر کئی لوگوں نے خطاب کرکے شہید جنرل ضیاء الحق کو خراج عقیدت پیش کیا۔ گو جنرل ضیاء الحق کو آمر کہا جاتا ہے، لیکن وہ ایک محب وطن اور اسلام پسند شخصیت تھے۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ان سے ہمیشہ خائف رہتا تھا۔ یہ ناچیز بعض باتوں کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، ایک بات ضرور ہے جنرل ضیاء الحق شہید زندہ ہوتے تو خالصتان ضرور بن جاتا ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق شہید کی خداداد صلاحیتوں کا مظہر ہے، افغان جہاد جاری رہا اور صدر ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام بھی جاری رکھا۔ دنیا کی سپر پاور امریکہ کو کان کان خبر نہیں ہونے دی۔ یہاں اگر مرحوم صدر غلام اسحاق خان کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہوگی، جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے جنرل ضیاء الحق کی ایٹمی پروگرام بارے حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا، لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا 1977ء کے انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی سے مذہبی جماعتوں نے بھرپور احتجاج کیا، بلکہ میں تو اس دھاندلی کا عینی شاہد ہوں۔ راولپنڈی میں ایم سی ہائی اسکول کے پولنگ اسٹیشن پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سید اصغر علی شاہ مرحوم نے میری موجودگی میں جعلی ووٹوں کا ایک بنڈل بیلٹ باکس میں ڈالا تھا۔ بعض لوگ اپنے محسنوں کو بہت جلد بھلا دیتے ہیں، انہی میں شریف خاندان سرفہرست ہے۔ جنرل صاحب کی برسی کی تقریب میں شریف خاندان کو کوئی فرد دیکھنے میں نہیں آیا۔ جناب اعجاز الحق کا کالم ایک اردو معاصر میں نظر سے گزرا جس میں انہوں نے ملک میں مارشل لاء لگنے کی پوری تفصیلات بیان کی ہیں، جس کے بعد ملک میں مارشل لاء لگنے بارے کسی قسم کا ابہام نہیں رہ جاتا۔ ملک تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسکندر مرزا سے ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک افواج پاکستان کے سپہ سالاروں میں ماسوائے شہید ضیاء الحق کی برسی کے، کسی کی برسی کی تقریبات اس جذبے کے ساتھ نہیں منائی جاتیں، جس طرح شہید جنرل ضیاء الحق کو ملک کے عوام شاندار الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ گو ان پر بھٹو کو پھانسی دینے کا الزام لگتا رہا ہے، لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے جناب بھٹو کو پھانسی کی سزا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف سے سنائی گئی تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں عدلیہ پر کوئی دبائو ضرور ہو گا، مگر ہمارے سامنے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان پانچ ججوں کی مثال سامنے ہے، جنہوں نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنی نالش چیف جسٹس کو بھجوا دی۔ یہ پانچ جج آج بھی معمول کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لہذا ہمارے خیال میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کو شہید جنرل ضیاء الحق پر پھانسی دینے کا الزام غلط ہے۔ شہید جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں ملک و قوم کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ جیسا کہ آئے روز سابق جرنیلوں کا ملک سے باہر اثاثے بنانے کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں، جنرل ضیاء الحق کے بارے میں آج تک نہ کسی اخبار نہ کسی کالم نگار نے اثاثے بنانے کی خبر دی، جو ان کی راست بازی کا واضح ثبوت ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جنرل صاحب نے ملک میں اسلامی اصلاحات لانے کی سر توڑ کوشش کی، مگر زندگی نے یاوری نہیں کی اور وہ طیارے کے حادثے میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ ملک میں قصاص ودیت کے قوانین جو آج کل رائج ہیں انہی کے دور میں بنائے گئے ۔زکوٰۃ کا نظام، بیت المال اور طرح کی کئی اور اصلاحات عملی طور پر نافذ کیں۔ شہید کے بیٹے رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں طیارے کے حادثے کے سلسلے میں ہونے والی تحقیقات سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ عوام بھی اس سانحہ کے حقائق جان سکیں۔





