Column

ہم نشینی اگر کتاب سے ہو

ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری ۔۔۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے
ہم نشینی اگر کتاب سے ہو، اس بہتر کوئی رفیق نہیں
مگر وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں، یہ کتاب کی آخری صدی ہے۔
نہیں صاحب آپ ’’ بے جا ‘‘ فرما رہے ہیں، بجا تو یہ ہے کہ ’’ یہ تو صدی ہی کتاب کی ہے ‘‘۔
اگر ہم زندہ ہیں تو کتاب بھی زندہ رہے گی۔ اسے زندہ رہنا ہو گا، زندہ رکھنا ہو گا۔ اور کتاب زندہ ہے تو ہم بھی زندہ ہیں۔ پلیز یہ مت کہیں کہ اور شرمندہ نہ کریں۔
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
کتاب کو زندہ رکھنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ کر ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ کہ ہم لوگ ہی تو کتاب کے وارث ہیں، کتاب والے ہیں، کتاب کے خوگر ہیں، کتاب کے ساتھی ہیں، کتاب زندگی بھی ہماری ہے اور اس کے محافظ بھی ہم ہی ہیں۔ ہمیں اپنا یہ مشن مکمل کرنا ہے، ہمیں یہ ذمہ داری بطرز احسن نبھانی ہو گی۔ سارا الہامی و غیر الہامی علم کتاب ہی میں مرکوز و مسطور ہے۔
انسان کی ذہنی اپچ نے آڑھی ترچھی لکیروں کو لفظ کا نام دیا اور پھر انہی لفظوں کو کتابوں میں محفوظ کر کے آنے والی نسلوں تک آفاقی پیغام پہنچایا۔ انسان کو اظہار کا سلیقہ انہی لفظوں نے سکھایا۔ گاہے خاموشی اس کے جذبات کے اظہار کا سبب بنی ۔۔۔
اب ہر کوئی خاموشی کی زبان سمجھ لے یہ ضروری تو نہیں ہے، بعض لوگ تو جان کے انجان بن جاتے ہیں۔ اب ایسے میں کیا کیا جائے۔ کہتے ہیں جو آپ کے چہرے سے آپ کی کیفیت کا اندازہ نہ لگا سکے تو اسے کچھ بتا کر لفظوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن بولنا تو پڑتا ہے۔ لکھنا تو پڑتا ہے۔
ورنہ یہ صورت ہو جائے:
اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا
پتھرا گیا وہ جسم کے اندر پڑے پڑے
بات پر برمحل اور بروقت کہنا بھی اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے، ورنہ منیر نیازی کی طرح دیر ہو جاتی ہی ۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو ، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو ، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔
کتابوں نے ہمارے ماضی کاو حال کا آئینہ بنایا ہے اور ہمارے حال کو بھی ہمارے مستقبل سے جوڑنے کا سبب کتابیں ہی ہوں گی۔
ان کی اہمیت سے کس کو انکار نہیں کہ انکار ممکن ہی نہیں، ایسا کوئی انکار، اپنی ذات سے انکار کے مترادف کے ہو گا اور اپنی اقدار سے انکار کا دوسرا نام بھی۔
انکل سرگم کا پروگرام کلیاں بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھا
وہ کہا کرتے تھے
کتابیں باتیں کرتی ہیں ہمارا دل بہلانے کی
کبھی اگلے زمانے کی کبھی پچھلے زمانے کی
کتابیں لکھنا ہے نیکی اور پڑھنا عادت بھی اچھی
کتابیں راز بتلائیں نئے انداز سکھلائیں
کتابیں علم کی کنجی ہیں پوشیدہ خزانے کی
کتابیں باتیں کرتی ہیں۔۔۔۔
کتابیں سچی ساتھی ہیں نہ ان سے ناطہ تم توڑو
کہیں یہ کھو ہی نہ جائیں انھیں تنہا نہ تم چھوڑو
کتابیں راہیں دکھلائیں ہمیں منزل کو پانے کی
کتابیں ۔۔۔۔
کتابیں صرف باتیں کر کے ہمارا دل ہی نہیں بہلاتیں یہ ہمیں زندگی کا درس بھی دیتی ہیں۔ ہمیں راستہ بھی دکھاتی ہیں۔ ہمیں جینا بھی سکھاتی ہیں۔
آج کل کی صورتحال کو اگر ذہن میں رکھیں تو انٹرنیٹ کی وجہ سے ہم سوشل میڈیا کے عادی ہو چلے ہیں، لوگ کتابیں خریدنے سے زیادہ پی ڈی ایف ایڈیشن کی طرف زیادہ راغب ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس پر ان کا کچھ خرچ نہیں آتا۔ مفت کے مزے لے لیتے ہیں، لیکن اس طرح وہ لکھاری اور پبلشر کی حق تلفی کرتے ہیں۔ ان کا نہیں سوچتے جن کا تعلق کتاب سے ہے، خواہ وہ لکھاری ہو۔۔۔ پبلشر ہو ۔۔۔۔ یہ کتابیں فروخت کرنے والا۔ مہنگائی نے عوام آدمی کی مانا کہ کمر توڑ کے رکھ دی ہے لیکن اگر باقی معاملات جیسے تیسے چل رہے ہیں تو کتاب کیوں نہیں۔ یہ ہماری زندگی سے کیوں نکل رہی ہے۔
کتابیں زندہ رہیں گی، انھیں زندہ رہنا ہو گا۔
اگر ہمیں یہ بتانا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں تو ہمیں کتاب کا سوچنا ہو گا۔
کتاب سے اپنا رستہ مضبوط بنانا ہو گا۔
اب آخر میں، مجھے اپنے بچپن کی ایک عادت تھی کہ اپنے بیگ میں نئی، پرانی سبھی کتابیں بھر لیا کرتے تھے کہ لوگ کہیں ہم بڑی جماعت میں پڑھتے ہیں، یہ دیگر بات کہ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ بڑی جماعتوں والے تو دو کتابیں بغل میں دبا کر کالج پہنچ جاتے ہیں اور بیگ تک اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔۔۔
ایک بار میرے دوست سید مہدی بخاری کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے لے کر کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔ پھر میں کہا’’ کتابوں سے بڑھ کر کوئی تحفہ ہے ‘‘، وہ جلدی سے میرے ہاتھ سے کتاب لے کر بولے، لیکن یہ کتاب پرائی ہے ۔ پڑھ کر مجھے واپس بھی کرنی ہے ‘‘۔
ایک بات کا بصد افسوس ذکر کروں گا کہ ادیب اور کتاب دوست لوگ کتابوں کی اشاعت کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ یہ لوگ کبھی کتاب خرید کر نہیں پڑھتے بلکہ ہر کسی سے اعزازی کتاب طلب کرتے ہیں۔ کہ کیسی کتاب دوستی ہے ۔ یہ کتابوں سے کا طرح کا عشق ہے۔ اس روش کی ہر ممکن حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
اب آخر میں ایک افسانچہ پیش خدمت ہے
کتاب چور ۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری۔۔۔۔
’’ یہ لیجئے صاحب ‘‘
’’ یہ کیا ہے ؟‘‘
’’ دیکھ نہیں رہے کتاب ہے‘‘
’’ مجھے کس خوشی میں دے رہے ہو‘‘
’’ بھئی یہ لڑکا میری دکان پر اسے بیچنے کے لیے لایا تو کتاب دیکھتے ہی میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ آپ کی دکان سے کتاب چرا کے لایا ہے‘‘
’’ اس لڑکے کو کتاب چراتے میں نے دیکھ لیا تھا مگر جان بوجھ کر میں لاعلم بنا رہا، میں سوچ رہا تھا کہ چلو اسی بہانے ہی سہی کم از کم وہ کتاب پڑھے گا تو سہی لیکن یہ اس اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتاب بیچنے کے لیے چرا رہا ہے‘‘۔۔۔۔

جواب دیں

Back to top button