قدیم ترین نظریہ ضرورت زندہ باد

قدیم ترین نظریہ ضرورت زندہ باد
کالم :صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
یوم آزادی پر تمغے بھی تقسیم ہو گئے، پرچموں کی بہار بھی گزر گئی، اب پھر وہی خزاں کا منظر ہے، بلکہ نوید سنا دی گئی ہے جاری موسم آئندہ دس برس تک جاری رہ سکتا ہے۔ ارباب اختیار کی دانشمندی سے پوری قوم احساس کمتری کا شکار ہونے سے بال بال بچی ہے۔
سوشل میڈیا پر یوگنڈا کے قومی کے دن کے حوالے سے ایک تقریب کا کلپ ہے، یوگنڈا کے صدر عدی امین فوجی وردی میں ملبوس سٹیج پر کھڑے ہیں، ان کے پیچھے خواص کی ایک بڑی تعداد صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھی ہے۔ چا ک و چوبند فوجی سپاہی پتھر کے بت بنے اپنی اپنی مقرر کردہ جگہوں پر موجود ہیں۔ فوجی بینڈ قومی دھنیں بکھیر رہا ہے اور ہر بشر کا لہو گرما رہا ہے۔ عدی امین مائیک پر آکر اعلان کرتے ہیں، ملک اور قوم پر ایک کڑا وقت آیا تو ہر شخص کی کانپیں ٹانگ رہی تھیں۔ ایسے میں صرف ایک شخص تھا، جو عزم و ہمت کی تصویر بنا تھا، وہ بے خوف تھا، حوصلہ مند تھا، اس کے دل میں یوگنڈا سے محبت اور اس کی حفاظت و ترقی کیلئے سرحد سے گزر جانے کا جذبہ موجیں مار ر ہا تھا، پس اس کی حوصلہ مندی جرات و بہادری کو خراج پیش کرنے کیلئے میں اسے یوگنڈا کا سب سے بڑا اعزاز عطا کر رہا ہوں، یہ میرا تیرہ برس کا بیٹا ہے، ٹھیک اسی لمحے کیمرہ مین دکھاتا ہے کہ ایک تیرہ برس کا بچہ فوجی وردی میں ملبوس فوجی طریقے سے مارچ کرتا قدم بڑھاتا سٹیج پر آتا ہے۔ صدر عدی امین میڈل اس کے سینے پر سجاتے ہیں، وہ آتے اور جاتے وقت اپنے ابا حضور صدر یوگنڈا عدی امین کو ایڑیاں بجا کر زور دار سلیوٹ کرتا ہے اور اپنی ایڑیوں پر گھوم کر رخصت ہوتا ہے۔ حاظرین کی بڑی تعداد زور دار تالیوں میں اسے رخصت کرتی ہے، کیمرہ عدی امین کے چہرے کا کلوز دکھاتا ہے، جو انتہائی مسرور ہے، ساتھ ہی پس منظر میں بیٹھے شرفا اور پریس گیلری کی طرف کیمرہ گھومتا ہے، سب صدر عدی امین کے اس اقدام کو سراہتے نظر آتے ہیں، داد و تحسین کا ایک شور ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد فلک شگاف نعرے لگا رہی ہے۔ ان کی زبان تو سمجھ میں نہیں آتی ہے، لیکن وہ سب یقیناً یک زبان ہو کر یہی کہ رہے ہونگے، قدم بڑھائو عدی امین، قوم تمہارے ساتھ ہے۔ ممکن ہے وہ یہ بھی کہہ رہے ہوں عدی امین قوی امین یعنی ایک عدی امین سب پر بھاری، یہ منظر جس جس پاکستانی نے دیکھا، وہ احساس کمتری کا شکار ہونے والا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک گزٹ نوٹیفیکیشن تھر کتا مچلتا نظر آیا، جس نے اہل پاکستان کی دل کی دھڑکنیں بند ہونے سے بچا لیں۔ یہ نوٹیفیکیشن 23مارچ 1958ء کو کراچی سے جاری ہوا، جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا۔
نوٹیفیکیشن نمبر ایف 40ایس 58کے مطابق کہا جاتا ہے کہ میں صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا اپنے وزراء کی طرف سے اپنے لیے نشان پاکستان کا اعزاز بخوشی قبول کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ نشان پاکستان کا اعزاز جناب خواجہ ناظم الدین اور بیگم ناہید اسکندر مرزا کو عطا کرنے کی منظوری دیتا ہوں، جس روز یہ اعزازات تقسیم کرنے کی تقریب منعقد ہوئی، اس روز بھی موسم بہت سہانا تھا۔ تقریب کو قومی امنگوں کا ترجمان بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ مہمان خصوصی کیلئے ایک بلند سٹیج تیار کیا گیا تھا، اس پر قیمتی قالین بچھے تھے، سامنے وقت کے برہمنوں کیلئے خوبصورت آرام دہ صوفے لگے تھے۔ ان کے پیچھے شودروں کے بیٹھنے کیلئے کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ سب سے پہلے سرکاری اور پرائیوٹ شودرو پنڈال میں پہنچے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے، ان کے پندرہ منٹ بعد برہمن آئے۔انہوں نے اپنے اپنے صوفے سنبھالے، ہر صوبے پر ہر برہمن کا نام لکھا تھا، ٹو سیٹر صوفے پر ایک، ایک خاتون کی گنجائش تھی، لیکن ضروری نہ تھا کہ مہمان کے ساتھ اس کی بیوی ہی بیٹھے، بعض مہمانوں کے ساتھ کسی اور کی بیوی بھی تھی، یہ دراصل کسی اور کی دوسری بیوی تھی۔ یعنی سیاسی بیوی، اس سے عقد سے پہلے طے ہو جاتا تھا کہ اس کا کردار سیاسی ہوگا، وہ سیاسی امور کی دیکھ بھال کریگی۔ سیاسی بیوی کا کلچرل اس وقت رائج ہوا جب پاکستان میں ابھی ایگری کلچرل نے پوری طرح جڑیں نہیں پکڑی تھیں۔ پنڈال میں ایک طرف فوجی بینڈ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا، اس وقت، اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا اور اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں۔ جیسے نغمے نہیں لکھے گئے تھے، لہٰذا مقبول فلمی نغموں سے کام چلایا جاتا تھا، اچانک بینڈ خاموش ہو گیا اور ایک زوردار بگل بجا کر صدر پاکستان کی آمد کا اعلان ہوا، پھر صدر پاکستان درجنوں افراد کے جلوس میں پنڈال میں داخل ہوئے، ان پر پھولوں کی پتیاں آج کے انداز میں نچھاور کی جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ان کی خوبصورت بیگم ناہید سکندر مرزا تھیں، جو فلم سٹار نرگس کے انداز میں سبز رنگ کی ساڑھی میں ملبوس تھیں، جس پر سنہرے اور روپیلے تلے کا کام کیا گیا تھا، وہ مرکز نگاہ تھیں، سرکاری اور سماجی برہمنوں کے ساتھ آئی خواتین نے دو رویہ کھڑے ہو کر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کا قومی فریضہ انجام دیا۔ سرکاری فوٹو گرافر ان لمحوں کو کیمروں کی آنکھ سے محفوظ کرتے رہے۔ تمام تقریبات کا آغاز اس وقت بھی تلاوت کلام سے ہوتا تھا، نعت رسول مقبول پڑھنے کا رواج نہیں تھا، لہٰذا تلاوت کے فوراً قومی ترانہ بجایا جاتا، شرکاء میں بعض سر جھکائے اور کچھ سر اٹھائے ترانے کے احترام میں کھڑے نظر آتے، جس کے بعد ایک سرکاری سیکرٹری مائیک پر آ کر نشان پاکستان حاصل کرنے والوں کی شان میں قصیدہ پڑھتا اور ان کارناموں کا تفصیل سے ذکر کرتا کہ یہ قومی اعزاز حاصل کرنے والوں نے کس کس آسمان سے کون کون سے ستارے توڑے ہیں، تقسیم اعزازات کے بعد شودروں کو چائے، مٹھائی کیلئے ایک ہال میں بھیج دیا جاتا اور نو رتنوں اور برہمنوں کو ایک علیحدہ ہال کا راستہ دکھایا جاتا، جہاں بادشاہ اور ملکہ کی صحت کیلئے جام صحت تجویز کیا جاتا، پھر منتخب برہمن اور برہمین ہاتھ میں جام اٹھائے دھیرے دھیرے رقص کرتیں، بعد از رقص کچھ افراد وہاں سے کسی اور جگہ منتقل ہو جاتے، پیچھے رہ جانے والے ماحاضر تناول کرتے اور بادشاہ و ملکہ کی صحت اور درازی عمر کی دعائیں کرتے، اس قسم کی تقریبات میں پرفارمنس کے بل بلوتے پر برہمنوں کی ترقیوں کا فیصلہ بھی ہوتا کہ کون گریڈ اکیس سے گھر جائے گا اور کون اکیس سے بائیسں میں پہنچے گا، کس وزیر کا وقت پورا ہو چکا ہے، کس کی ابھی ضرورت باقی ہے، سب کچھ نظریہ ضرورت کے تحت میں تھا، آج بھی ہے۔





