کراچی امن کیلئے قربانیاں

کراچی امن کیلئے قربانیاں
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
میرا ایک دوست، اسلام آباد ایف آئی اے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہا۔ میں اُس دوران ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی میں ملازم تھا۔ جب وہ کراچی آیا تو مجھ سے ملاقات کے لیے آیا۔ نہایت بااخلاق، باوقار اور مذہبی مزاج رکھنے والا انسان ، مجھے مسکرا کر کہتا ،’’ بھائی! کوئی بھی کام ہو تو ضرور بتائیے گا، میں حاضر ہوں ‘‘۔ میں نے جواب دیا، ’’ سکندر بھائی ! میں ایک شریف نفس انسان ہوں، کسی کو مجھے سے کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟‘‘۔ وہ فوراً ہنستا اور کہتا،’’ بھائی! لوگ تو شریفوں کو ہی سب سے زیادہ تنگ کرتے ہیں‘‘۔
میں بات کی گہرائی کو نہ سمجھ سکا، لیکن آج سمجھتا ہوں کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔ جب ملک اور گلی محلوں پر مافیا مسلط ہو جائے پھر سب سے زیادہ تکلیف میں عام شہری رہتے ہیں۔ یہ جس دور کی بات ہے اُس دور میں کراچی کے حالات کنٹرول سے باہر تھے۔ خوف ہر گلی، ہر بازار اور ہر چہرے پر سایہ فگن تھا۔ 2013ء اور 2014ء میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے واقعات روز کا معمول تھے۔ میڈیا رپورٹس کے اعداد و شمار کے مطابق اُس وقت کراچی میں سالانہ 2000سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو رہے تھے، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے ۔ ریاست نے اے پی ایس حملے کے بعد فیصلہ کیا اب ایسا نہیں چلے گا۔ ریاست نے ان مافیا اور دہشت گردوں کے خلاف مضبوط حکمت عملی کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں نیشنل ایکشن پلان نافذ کیا گیا۔ رینجرز کو کراچی آپریشن کے خصوصی اختیارات دئیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2013ء سے 2016ء کے درمیان سندھ رینجرز نے 9000سے زائد آپریشن کیے ، ہزاروں جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا اور سیکڑوں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور اور اغوا کاروں کے نیٹ ورک توڑے۔ اس دوران 1000سے زائد رینجرز و پولیس کے جوان اور افسر شہید ہوئے۔
یہ صرف کارروائیاں نہیں تھیں، ملک کی سلامتی کے لیے قربانیوں تھیں۔ شہادتوں کے سفر نے اس شہر کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دیا۔ کئی ’’ کن ٹوٹے‘‘ آج شریف نفس بنے ہوئے ہیں۔ آج کراچی کا تاجر چین سے کاروبار کرتا ہے، عام شہری تحفظ میں ہیں۔ بچے اسکول جا سکتے ہیں اور شہری بازاروں میں خوف کے بغیر چل سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی جی رینجر سندھ نے تاجر برادری اور شہریوں کے تحفظ کا احساس دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کتے کو ہڈی کا شوق ختم نہیں ہوتا، اس طرح مافیا، دہشتگرد کبھی ہتھیار نہیں ڈالتا۔ وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری نے انسداد دہشتگردی ترمیمی بل پیش کیا ہے۔ ترمیم کا مقصد دہشتگردی کی روک تھام اور سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے ۔
2012ء والے حالات دوبارہ اس ملک میں ہیں، ایک ماہ کے دوران چار میجر شہید ہوئے ہیں، یہ قانون بنانا اب ضروری ہے، ہمیں فورسز کی مدد کرنی ہے۔ ترمیم سے قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر کارروائی کر سکیں گے۔ خطرناک عناصر کی بروقت گرفتاری سے دہشتگردی کی سازشوں کو روکا جا سکے گا۔
’’ ملکی صورتحال کے پیش نظر ایسے قانون کی اہم ضرورت ہے لیکن اس قانون پر عمل داری سے پہلے مکمل تحقیق کے بعد کاروائی عمل میں لائی جائے گی ‘‘۔
اس وقت کراچی جیسے بڑے شہروں میں دہشتگردوں، پیدا گیروں اور بھتہ خوروں نے اپنی شکل بدل کر منشیات کے دھندے میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ دہشتگرد ، پیدا گیر اور منشیات فروش سسٹم کے نام سے سپورٹ دے رہے ہیں۔ یہ مٹھی بھر افراد ہمارے بچوں کے خواب بیچ رہے ہیں اور ان کی جوانی جلا رہے ہیں۔ صرف 2024ء میں کراچی پولیس اور اینٹی نارکوٹکس فورس نے 8ٹن سے زائد منشیات برآمد کی، جن کی بین الاقوامی مالیت اربوں روپے تھی۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سندھ، مراد علی شاہ نے واضح اعلان کیا ’’ منشیات کے خلاف زیرو برداشت ہو گی۔ چاہے جو بھی ہو، سخت کارروائی ہوگی‘‘۔ لیکن یہ جنگ صرف اداروں کی نہیں بلکہ معاشرہ کی جنگ ہے۔ ہر محلے، ہر گلی میں ایک اجتماعی مزاحمت ہونی چاہئے۔ ہمیں ان سرپرستوں کو پہچان کر بے نقاب کرنا ہوگا۔
یاد رکھیں! اگر یہ زہر پھیلتا گیا تو آنے والا کل کسی کی لیے بہتر نہیں ہوگا۔ ہمیں قلم سے بھی لڑنا ہے اور ضرورت پڑے تو سڑک پر بھی آنا ہو گا۔ کیونکہ یہ وطن ہم سب کا ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میں پُر امید ہوں کہ ہماری موجودہ سیاسی و عسکری قیادت، رینجرز اور پولیس کی بہادری اور عوام کی یکجہتی سے ایک دن ضرور آئے گا جب یہ دھرتی مکمل طور پر امن کا گہوارہ ہوگی۔
ان شاء اللہ، پاکستان کی سرزمین پر صرف محبت، انصاف اور خوشحالی کے پرچم لہریں گے۔





