ColumnQadir Khan

ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات، یوکرین تنازع پر نئی بساط

ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات، یوکرین تنازع پر نئی بساط
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
تاریخ، سیاست، طاقت، اور امن کے اس نازک سنگم پر، الاسکا کے فوجی اڈے میں ہونے والی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے عالمی سیاست کے افق پر ایک نیا منظرنامہ سامنے آیا۔ اس ملاقات کو غیر نتیجہ خیز یا محض دو رہنماں کا ایک رسمی اجتماع نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اس نے سرد جنگ کے بعد سے جاری روس اور امریکہ کے پیچیدہ، کبھی دوستانہ اور کبھی مخاصمانہ تعلقات کے ایک نئے باب کی ابتدا رقم کی ہے۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو عالمی تناظر میں جغرافیائی، فکری، اور فوجی حکمت عملی کے حوالے سے گہرے اثرات کی حامل ہے۔ بالخصوص الاسکا کا انتخاب کرنا ایک گہری علامتی اہمیت ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جو کبھی روس کا حصہ تھی اور 1867 ء میں امریکہ کو فروخت کی گئی تھی۔ یہ تاریخی تسلسل اس ملاقات کا ایک عمیق تناظر ہے، جہاں ماضی اور حال ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ مزید برآں، پیوٹن کے خلاف عالمی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ کے باوجود ان کی اس سرزمین پر آمد نے نہ صرف امریکی خود اعتمادی کو اجاگر کیا بلکہ عالمی قانون اور طاقت کے توازن کے سوال کو بھی شدت سے اٹھایا۔
درحقیقت اس ملاقات کا پس منظر سرد جنگ کے خاتمے سے لے کر اب تک کے روس۔امریکہ تعلقات کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے، جو کبھی ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوں، کبھی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد، اور کبھی شام، کریمیا، یا یوکرین جیسے تنازعات کی شکل میں ایک دوسری کو چیلنج کرتے نظر آئے۔ سرد جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مستقل رولر کوسٹر پر سوار رہے ہیں، جہاں وقتی دوستی اور شدید دشمنی ایک دوسرے سے جا ملی ہیں۔ یوکرین کا تنازع، جو 2022ء سے جاری ہے، اس سلسلے کی سب سے سنگین کڑی قرار دی جاتی ہے۔ اس تنازع نے نہ صرف یورپ کی جغرافیائی سیاست کو تبدیل کیا بلکہ عالمی معاشی استحکام، توانائی کے وسائل، اور فوجی حکمت عملی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب عالمی سطح پر روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ روس، یوکرین جنگ نے نہ صرف لاکھوں افراد کو متاثر کیا بلکہ عالمی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ توانائی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، خوراک کی قلت سے ترقی پذیر ممالک شدید متاثر ہیں، اور نیٹو کے توسیعی عزائم سے روس دفاعی پوزیشن پر کھڑا نظر آرہا ہے۔ اس پس منظر میں ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت نے ایک غیر متوقع موڑ لیا جب انہوں نے روس کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو ان کی پہلی مدت میں بھی روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن داخلی سیاسی دبا، میڈیا کی تنقید، اور کانگریس کی مخالفت نے ان کوششوں کو محدود کر دیا تھا۔ تاہم، دوسری مدت میں ٹرمپ زیادہ جارحانہ اور فیصلہ کن انداز میں سامنے آئے ہیں۔ ان کا اقوام متحدہ میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد کی مخالفت کرنا ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ عالمی دبا کے باوجود اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
الاسکا ملاقات کے دوران کوئی فوری جنگ بندی یا امن معاہدہ طے نہیں ہوا، لیکن دونوں رہنماں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مستقل امن کے لیے جامع مذاکرات ناگزیر ہیں۔ پیوٹن نے اس ملاقات کو ’’ اہم فیصلوں کے قریب ایک قدم‘‘ قرار دیا، جو ان کی سفارتی زبان میں ایک اہم بیان ہے۔ یہ بیان نہ صرف روس کی ترجیحات، جیسے کہ یوکرین تنازع پر جامع مذاکرات اور نیٹو کی توسیع پر روک کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر قبول کرانے کی کوشش کو بھی عیاں کررہا ہے۔ دوسری جانب، ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی، جو ابھی تک براہ راست مذاکرات کا حصہ نہیں بنے۔ ٹرمپ کا یہ موقف کہ زیلنسکی کو مذاکراتی عمل میں شامل ہونا چاہیے، ایک ایسی حکمت عملی کی طرف اشارہ ہے جو یوکرین کو تنازع کے حل کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔
اس ملاقات کے عالمی اثرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں وسیع تر جغرافیائی اور سیاسی تناظر کو دیکھنا ہوگا۔ یوکرین تنازع نے نہ صرف روس اور مغرب کے درمیان تقسیم کو گہرا کیا بلکہ چین، بھارت، اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے کردار کو بھی اجاگر کیا۔ چین نے یوکرین تنازع میں غیر جانبدار رہتے ہوئے روس کے ساتھ اپنے معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کیا، جبکہ بھارت نے توانائی اور دفاع کے شعبوں میں روس کے ساتھ تعاون کو برقرار رکھا۔ اس تناظر میں، الاسکا ملاقات نے ایک ایسی راہ کھولی ہے جہاں نہ صرف روس اور امریکہ بلکہ دیگر عالمی طاقتیں بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتی ہیں۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار : یوکرین کی رضامندی، نیٹو کے اتحادیوں کی حمایت، اور عالمی رائے عامہ کا دبائو عوامل پر ہے
اس تناظر میں، الاسکا ملاقات نے ایک نازک لچک کو جنم دیا ہے۔ یہ لچک ایک طرف مذاکرات کے امکانات کو تقویت دیتی ہے، لیکن دوسری طرف اسے عالمی دبا، داخلی سیاست، اور فوجی حکمت عملی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پیوٹن اور ٹرمپ دونوں کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح اپنی اپنی عوام اور اتحادیوں کو اس عمل کی حمایت پر آمادہ کرتے ہیں۔ پیوٹن کے لیے، یہ ایک موقع ہے کہ وہ روس کو عالمی تنہائی سے نکال کر ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کریں، جبکہ ٹرمپ کے لیے یہ ان کی ’’ امریکہ سب سے پہلے‘‘ پالیسی کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنے کا موقع ہے۔ یہ سارا منظر نامہ ایک گہری تاریخی حقیقت سے جڑا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی جنگ اور کبھی مذاکرات کا سہارا لیتی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران، سوویت یونین اور امریکہ نے کئی بار ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہو کر بھی مذاکرات کی راہ اپنائی۔ آج، جب دنیا ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ ملاقات اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ لیکن اس بار، حالات مختلف ہیں۔ عالمی معیشت، ٹیکنالوجی، اور جغرافیائی سیاست نے ایک ایسی پیچیدگی پیدا کی ہے جو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہری ہے۔ سائبر وارفیئر، مصنوعی ذہانت، اور توانائی کے وسائل کی دوڑ نے روایتی فوجی تنازعات کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ اس تناظر میں، الاسکا ملاقات نے ایک ایسی امید کی کرن دکھائی ہے جو اگرچہ کمزور ہے، لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ مذاکرات اپنی روانی اور تسلسل کو برقرار رکھتے ہیں، تو شاید ہم ایک نئے عالمی محور کی تشکیل کے قریب پہنچ جائیں۔ لیکن اگر یہ عمل داخلی یا خارجی دبائو کا شکار ہوا، تو یہ محض ایک سیاسی فریب یا عارضی خاموشی ثابت ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button