Column

بارشوں اور سیلاب سے 650 سے زائد افراد جاں بحق

بارشوں اور سیلاب سے
650 سے زائد افراد جاں بحق
وطن عزیز میں ہر سال شدید بارشیں سیلابی صورت حال اختیار کر لیتی ہیں، جن سے بڑے جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ عالمی سطح پر یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے۔ 2022ء میں ہونے والی شدید بارشوں نے ملک میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ 1700سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونے کا عذاب جھیلنا پڑا تھا کہ شدید بارشوں اور سیلاب سے ان کے گھر بہہ گئے تھے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی تیار فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔ زرعی پیداوار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ لوگوں کے بے شمار مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ کر ہلاک ہوگئے تھے۔ خاصی دردناک صورتحال تھی۔ اُس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سکھر کا ہنگامی دورہ بھی کیا تھا اور پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دُنیا پر زور دیا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تغیر سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے، دُنیا کو اس کو اس مشکل سے نکالنے میں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ امسال بھی پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں میں کلائوڈ برسٹ کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ سیلاب کی بھی ملک کے مختلف حصوں میں صورت حال نظر آتی ہے۔ بالائی علاقے زیادہ بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ اب تک دو ماہ کے دوران ساڑھے 6سو سے زائد افراد بارشوں، سیلاب، کلائوڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر حادثات میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان بھر میں بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 650سے تجاوز کر گئی۔ ملک کے مختلف شہروں میں شدید مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور بارشوں کے باعث ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے شدید تباہی مچائی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) کے مطابق 26 جون سے اب تک بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے ہونے والے حادثات میں 657افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق جاں بحق افراد میں 171بچے، 94خواتین اور 392مرد شامل ہیں جبکہ حادثات میں 920افراد زخمی بھی ہوئے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق مون سون بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا، جہاں مختلف حادثات میں اب تک 373افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جب کہ بہت سے لوگ اب تک لاپتا ہیں، جن کی تلاش جاری ہے۔ اس کے علاوہ مون سون بارشوں سے پنجاب میں 164، سندھ میں 28، بلوچستان میں 20، گلگت بلتستان میں 32، آزاد کشمیر میں 15جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 8اموات ہوئیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر بارشوں، سیلاب، کلائوڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ سے ہم وطنوں کے جاں بحق ہونے پر پوری قوم اشک بار اور اُداس ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ اُن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس موقع پر پاک افواج اور امدادی اداروں کے کردار کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا، جو تندہی کے ساتھ متاثرین کی امداد اور بحالی میں مصروف عمل ہیں۔ بے شمار لوگوں کو پاک فوج کی جانب سے ریسکیو کرکے اُن کی زندگیوں کو بچایا گیا ہے۔ پوری قوم ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کے بیشتر اضلاع میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کے ساتھ کلائوڈ برسٹ اور فلیش فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ترجمان پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کے مطابق پیر سے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں مون سون کے ساتویں اسپیل کے تحت شدید بارشوں کا امکان ہے، بارشوں کا یہ سلسلہ 23اگست تک جاری رہ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے ترجمان نے بتایا کہ راولپنڈی، مری، گلیات، جہلم، چکوال اور اٹک میں کلائوڈ برسٹ کے خدشات ہیں جبکہ لاہور، شیخوپورہ، منڈی بہاالدین، گوجرانولہ، حافظ آباد، وزیر آباد، سیالکوٹ، نارووال، ساہیوال، جھنگ میں بھی شدید بارشیں متوقع ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، چنیوٹ، فیصل آباد، اوکاڑہ، قصور، خوشاب، سرگودھا، بھکر، بہاولپور، میانوالی، بہاولنگر، ڈی جی خان، ملتان، مظفرگڑھ، خانیوال، لودھراں، راجن پور، رحیم یار خان اور لیہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔ شدید بارشوں کی پیش گوئی تشویش ناک صورت حال کی غمازی کرتی ہے۔ عوام کو اس موقع پر احتیاط کا دامن ہر طریقے سے تھامی رکھنا چاہیے۔ غیر ضروری گھروں سے نہ نکلیں۔ بجلی کے آلات استعمال کرنے میں احتیاط کریں۔ رب العزت سے دعا ہے کہ تمام اہل وطن کو بارشوں، سیلاب، کلائوڈ برسٹ اور لینڈ سلائیڈنگ کے نقصانات سے محفوظ رکھے۔ موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والی صورت حال پاکستان کے لیے چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس سے وہ تن تنہا عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ موسمیاتی تغیر میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن ملک اور قوم اس کا بھاری اور ناقابل تلافی خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مہذب دُنیا اس مشکل صورت حال میں پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے۔ بارشوں، سیلاب اور دیگر آفات کے سبب وطن عزیز کے عوام بے پناہ مصائب اور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُن کی بحالی اور امداد کے لیے دُنیا کو بھی آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بجلی چوری کا مکمل سدباب ناگزیر
وطن عزیز میں بجلی چوری کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے، اس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ چور سارا سال چوری میں لگے رہتے ہیں، سالانہ اربوں روپے کی بجلی چوری کرلی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ جب سے اس نے اقتدار سنبھالا ہے، تمام ہی شعبہ جات میں اصلاحات کے سلسلے کو متواتر جاری رکھا ہوا ہے، جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ بجلی کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئی ہیں اور بجلی چوری کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں کارروائیاں بھی عرصۂ دراز سے جاری ہیں، جن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں، لیکن منزل اب بھی کافی دُور ہے۔ بجلی چوری کا مکمل سدباب نہیں ہوسکا ہے، البتہ ریکوریز کے حوالے سے صورت حال خاصی حوصلہ افزا ہوئی ہے، گو اس میں مزید بہتری کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی چوری سے نقصانات میں بڑی کمی نہ آسکی، سرکاری بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات میں صرف 11ارب روپے کمی ریکارڈ کی گئی، تاہم وفاقی حکومت بجلی وصولیوں کے نقصانات 183ارب روپے کم کرنے میں کامیاب رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ڈسکوز کی نااہلی اور چوری کی مد میں نقصانات صرف 11 ارب روپے کم ہونے کے بعد 265ارب روپے رہے، تاہم وفاقی حکومت کو بجلی وصولیوں کے نقصانات183ارب روپے کم کرنے میں بڑی کامیابی ملی ہے۔ مالی سال 24۔2023کے دوران بجلی چوری اور ڈسکوز کی نااہلی کے نقصانات 276ارب روپے تھے جو گزشتہ مالی سال 25۔2024میں 11ارب روپے کی کمی سے 265ارب روپے پر آگئے ہیں۔ پاور ڈویژن کی دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال ڈسکوز کے مجموعی نقصانات 397 ارب روپے رہے جو مالی سال 24۔2023میں 591ارب روپے تھے۔ یعنی مالی سال 25۔2024میں سالانہ بنیادوں پر ڈسکوز کے مجموعی نقصانات 194ارب روپے کم ہوئے۔ دستاویز کے مطابق ڈسکوز کے نقصانات اور انڈر ریکوریز پاور سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ کا حصہ ہے۔ بجلی چوری کے مکمل سدباب کے لیے سخت اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ بجلی چوری کے تمام تر راستے مسدود کیے جائیں۔ خواہ کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، اُس کے لیے بجلی چوری کی راہیں ناصرف بند کی جائیں بلکہ اس کو اس جرم میں سزا بھی دلوائی جائے۔ ریکوریز کے حوالے سے بھی مزید بہتر اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مزید مثبت نتائج دے سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button