آبی گزرگاہیں، برساتی پانی کے لیے تنگ کیوں؟

آبی گزرگاہیں، برساتی پانی کے لیے تنگ کیوں؟
تحریر :روشن لعل
صوبہ خیبر پختونخوا میں بادل پھٹنے اور شدید بارشوںکی وجہ سے آنے والے اچانک سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ بھی تباہی کا شکار ہوا ہے۔اس تباہی کی سب سے افسوسناک بات وہاں ہونے والی 350کے قریب ہلاکتیں ہیں۔بارشوں نے تباہی تو تقریباً تمام خیبر پختونخوا میں برپا کی مگر بونیرسب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے۔ بونیر میں لوگوں کے متعدد ذاتی گھروں سمیت مفاد عامہ سے جڑی سکولوں ،مساجد، سڑکیں ، اور پلوں جیسی کئی دیگر عمارتیں بھی تباہی کا شکار ہو ئیں ۔ بونیر کے علاوہ دیگر مثاثرہ اضلاع شانگلہ، مانسہرہ، سوات ، باجوڑ اور بٹگرام ہیں۔ بونیر میںہلاک شدہ لوگوں کی تعداد تقریباً 210جبکہ باقی ہلاکتیں دیگر اضلاع میںہوئیں۔اس کے علاوہ صوبے بھر میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 120اور جو 50لوگ لاپتہ ہیں ان کے زندہ ہونے کی امیدیں کافی معدوم ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جو علاقے تباہی کا شکار ہوئے اور جو اب تک محفوظ ہیں ان میںسے ہر ایک کے متعلق کہا جارہا ہے کہ بوجوہ، وہاںآنے والے دنوں میںشدید بارشوں اور کسی نئی تباہی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ۔
رواں اگست کے دوران بونیر سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی دیکھ کراچی میں اگست 2020کے دوران ہونے والی بارشوں کا خیال ذہن میں آگیا ہے۔ سال 2020میں 24تا28اگست کے دوران کراچی میں لگاتار 484ملی میٹر ریکارڈ بارش برسی تھی جبکہ 28اگست کو ایک دن میں 231ملی میٹر بارش برسنے کا ریکارڈ بھی قائم ہوا تھا ۔ مذکورہ بارشوں کے دوران کراچی میں نہ تو ہلاکتیں کے پی کے میں حالیہ بارش کے دوران ہونے والی ہلاکتوں جتنی تھیں اور نہ ہی وہاں انفراسٹرکچر کا اتنا زیادہ نقصان ہوا تھا لیکن اس کے باوجود میڈیا ، اس وقت کی عمران خان حکومت اور ان کے کراچی والے ساتھیوں نے جو اودھم مچایا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ کراچی میں اگست 2020میں ہونے والی تباہ کن بارشوں اور کے پی کے میں تباہی برپا کرنے والی حالیہ بارشوں کی بنیادی وجہ تیزی سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران کے پی کے میں برپا ہونے والی تباہی پر افسوس کے باوجود یہ خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ مختلف میڈیا ہائوسز اور ان کے جن اینکر پرسنز نے اگست 2020میں سندھ حکومت کو اپنی بے رحم تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی تھی وہ اس مرتبہ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اگر بادل پھٹنے کی صورت میں مختصر ترین وقت ریکارڈ بارش برسے تو تباہی کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ کراچی میں 2020کی بارشوں کے دوران بے رحم تنقید کرنے والے اینکر پرسنز کے رویوں میں، کے پی کے کی حالیہ بارشوں کے دوران نظر آنے والی تبدیلی کو مثبت تصور کرنے کے باوجود یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ کراچی یا سندھ کے کسی بھی دوسرے علاقے میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید بارشوں نے اگر آئندہ کوئی تباہی برپا کی تو اینکر پرسنز کے رویے اسی طرح مثبت رہیں گے۔ گو کہ کے پی کے میں برسنے والی حالیہ بارشوں کے دوران مختلف میڈیا ہائوسز اور اینکر پرسنز کے رویوں میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن اب بھی اپنے تبصروں میں وہ بہت سے ایسے حقائق بیان نہیں کر رہے جنہیں پیش کرنے سے انہوں نے اگست 2020میں بھی گریز کیا تھا ۔
کراچی میں اگست 2020کی بارشوں کے دوران جو تباہی برپا ہوئی ، ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ اس کا سبب یہ بھی تھا کہ شہر میں نکاسی آب کی جو قدرتی گزر گاہیں صدیوں کے دوران وجود میں آئیں 1980کی دہائی شروع ہونے کے بعد سے ان پر طاقتور حلقوںنے ا س طرح ناجائز تجاوزات تعمیر کیں کہ ان کا سائز مختصر سے مختصر ہوتا چلا گیا۔ کراچی نکاسی آب کی گزرگاہوں پر جن تجاوزات کا میڈیا پر نہ ہونے کے برابر ذکر ہوتا ہے اطلاعات کے مطابق ان کی تفصیل یہ ہے کہ نکاسی آب کی سولجر بازار ڈرین پر عرصہ پہلے دو عدد بنک اور جیولر مارکیٹ تعمیر ہو چکی ہے۔ اسی ڈرین پر گرلز کالج کا ایک حصہ اور ایک گورنمنٹ سکول بھی بنایا گیا ، علاوہ ازیں شاہین کمپلیکس، سپریم کورٹ کی کار پارکنگ، اور صوبائی محتسب کا دفتر بھی اسی نالے پر بنا ہوا ہے۔ اسی نالے کی زمین پر کے ایم سی مارکیٹ اور اورنگ زیب مارکیٹ بھی موجود ہے۔ لیاری میں محمد شاہ روڈ کے نکاسی آب کے نالے پر ککری گرائونڈ کا ایک حصہ موجود ہے۔ گوشت مارکیٹ بھی اس نالے پر ہی بنائی گئی ہے۔ اسی نالے پر دو مسجدیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ عرصہ پہلے کورنگی روڈ کے ساتھ بہنے والے نالے کی چوڑائی کم کر کے اسے چھوٹا کردیا گیا ہے ۔ قیوم آباد کے پاس اسی نالے کو مٹی سے بھر کر پہلے اس کا نام و نشان ختم کر دیا گیا اور پھر ہموار کی گئی زمین پر بنگلے تعمیر کر لیے گئے۔ کینٹ سٹیشن سے آنے والا نالا کلفٹن تک پہنچ کر 50فٹ چوڑا ہو جایا کرتا تھا مگر اب اس نالے کے بہائو کو 36انچ قطر پائپ میں محدود کر کے نہر خیام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس کارروائی سے جو زمین حاصل کی گئی اس پر انتہائی دیدہ دلیری سے ناجائز عمارتیں تعمیر کردی گئیں، ان عمارتوں میں ایک مذہبی گروہ کا عبادت خانہ بھی شامل ہے۔ مدینہ کالونی کے نالے کی چوڑائی کم ہونے کی وجہ بھی تجاوزات ہیں۔ اورنگی کے سب سے بڑے نالے کے دونوں اطراف میں تجاوزات تعمیر ہونے کی وجہ سے اب یہ نالا ایک چھوٹی سے نالی بن کر رہ گیا ہے۔ دیگر نالوں کی طرح میانوالی نالے کو بھی چھوٹا کر دیا گیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق گجر نالے کی اصل چوڑائی 250فٹ ہے مگر تجاوزات کی وجہ سے اس کی موجودہ چوڑائی صرف 60فٹ رہ گئی ہے۔ ہریانہ نام کے نالے کے اوپر لینٹر ڈال کر اس کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں گزشتہ پچاس برسوں کے دوران نکاسی آب کی گزرگاہوں پر جو تجاوزات قائم ہوئیں ان کے نہ ہٹائے جانے کی بڑی وجہ عدالتی سٹے آرڈر ہیں۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ تباہی کے جو مناظر نظر آئے انہیں دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی عرصہ دراز سے قدرتی آبی گزرگاہوں کی زمینوں پر انتہائی بے رحمی سے عمارتیں تعمیر کر کے اپنی تباہی کا سامان پیدا کیا جاتا رہا۔ خیبر پختونخوا کے حوالے سے اس تفصیل سے تو آگاہی نہیں ہو سکی کہ وہاںکس آبی گزرگاہ کے سائز کو ناجائز تجاوزات تعمیر کر کے کتنا مختصر کیا گیا لیکن جو کچھ نظر آیا وہ اس بات کی گواہی ہے کہ طاقتور لوگ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے ہر حصہ میں مفاد عامہ سے وابستہ آبی گزر گاہوں کے اندر ناجائز تعمیرات سے گریز نہیں کرتے ۔ ہمارا میڈیا اور اینکر پرسن نہ جانے کیوں آبی گزرگاہوں پر ناجائز تعمیرات کی تفصیل بیان کرنے اور یہ بتانے سے ہچکچاتے رہتے ہیںکہ آبی گزرگاہیں برساتی پانی کے لیے تنگ کیوں ہو جاتی ہیں۔







