ColumnM Riaz Advocate

سپریم کورٹ رولز 2025کا تقابلی جائزہ

سپریم کورٹ رولز 2025کا تقابلی جائزہ
تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے سب سے پہلے رولز یعنی قواعد 1956، دوسری مرتبہ 1980جبکہ تیسری مرتبہ رواں برس مرتب کئے گئے۔ آرٹیکل 191سپریم کورٹ اور آرٹیکل 202ہائی کورٹس کو بااختیار بناتا ہے کہ یہ عدالتیں، آئین اور قانون کے تابع، عدالتی اُمور کو منظم اور عدالتی طریقہ کارکو وضع کرنے کی بابت قواعد بنا سکتی ہیں۔ یاد رہے نئے قواعد کو ترتیب دینے کے لئے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے رواں برس 14مارچ کو جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل چار رُکنی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے ملک بھر کی بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنزاور ججوں کے ساتھ ملکر حتمی مسودہ تیار کیا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے تفصیلی غور و خوض اور منظوری کے بعد رواں ماہ اگست میں نئے قواعد نافذ کر دیئے گئے۔
نئے قواعد عدالتی اُمور میں جدت، ڈیجیٹلائزیشن، عالمی معیار کے عدالتی نظام کے ساتھ مطابقت کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دیئے گئے ہیں۔ تقریبا نصف صدی پہلے بنے ہوئے قواعد میں شامل فرسودہ شقوں کو ہٹا کر نئے قواعد شامل کئے گئے ہیں۔ یہ قواعد عدالتی طریقہ کار کو آئین و قانون بلکہ دور حاضر کی ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گے۔ سپریم کورٹ قواعد، 2025سات حصوں، اڑتیس آرڈرز، اور چھ شیڈولز پر مشتمل ہے، جس میں سابقہ قوائد کی تقریباً 280دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں۔
اگر 1980اور 2025کے قواعد کا اختصار کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو2025کے قواعد منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ:
دائرگی کا طریقہ: 1980کے قواعد کے تحت صرف کاغذی دائرگی قبول تھی، جبکہ نئے قواعد کے تحت دائرگی مکمل طور پر ڈیجیٹل طریقہ کار کے تحت ہی قابل قبول ہوگی۔
سماعت کا طریقہ کار: پرانے قوائد کے مطابق فریقین/وکلاء کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا لازم تھا جبکہ نئے قواعد میں ویڈیو لنک کے ذریعہ سماعت کی سہولت بھی موجود ہے۔
عدالتی فیس اور قانونی امداد : کئی عشروں بعد عدالتی فیسوں پر نظر ثانی، وکیل اور سرکاری اخراجات کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ فوجداری درخواستیں فیس سے مستثنیٰ ہیں ( تصدیق شدہ کاپیوں کے علاوہ): کاپیاں جیل سے جمع کرائی گئی درخواستوں کے لیے مفت ہیں۔ مجرمانہ معاملات سے متعلق، حبس بے جا اور آرٹیکل 184(3)کی درخواستیں فیس سے مستثنیٰ ہیں۔ رجسٹرار سزائے موت کے مقدمات میں ریاستی خرچ پر وکیل کا تقرر کر سکتا ہے۔ فیس، اخراجات، سکیورٹی ڈیپازٹ کی ہر تین سال بعد نظرِ ثانی ہوا کرے گی۔
وکلاء یونیفارم: نئے قواعد کے مطابق وکلاء شیروانی یا سیاہ کوٹ پہن سکتے ہیں۔ گائون پہننا اب اختیاری ہے۔ جبکہ سینئر وکلاء چاہیں تو پورا سال گائون پہن سکتے ہیں۔
ریکارڈ تک رسائی: پرانے قواعد کے تحت عدالتی ریکارڈ /دستاویزات تک رسائی محدود تھی، جبکہ نئے قواعد کے تحت آن لائن سہولت کی بدولت ریکارڈ تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے۔
رجسٹرار کا اختیار و کردار: نئے قواعد کے تحت رجسٹرار کو عدالت کے دفتری، نگرانی اور انتظامی اُمور میں بہت زیادہ بااختیار بنایا گیا ہے جبکہ پرانے قواعد میں رجسٹرار کی اختیارات محدود تھے۔
دستاویزات کی نوعیت: نئے قواعد کے تحت دستاویزات سافٹ کاپی/آن لائن صورت میں دستیاب ہونگے جبکہ پہلے ایسا ممکن نہ تھا۔
بینچوں کی تشکیل: نئے قواعد میں 26ویں آئینی ترمیم اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ بینچوں کی تشکیل، ترتیب کے نئے نظام و طریقہ کار یعنی بینچوں کی تشکیل کے لئے کمیٹی کے کردار کو وضح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنایا گیا ہے۔ جبکہ پرانے قواعد میں بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید /پسند ناپسند پر منحصر ہوا کرتی تھی۔
ہنگامی مقدمات: پرانے قواعد کے تحت عدالتی کارروائیاں طویل ہو جایا کرتی تھیں، جبکہ نئے قواعد کے تحت ہنگامی نوعیت کے مقدمات 14دن میں نمٹانے کے لئے طریقہ کار وضح کیا گیا ہے۔
نظر ثانی اور اپیل: نئے قواعد کے تحت فیصلے کے خلاف صرف ایک نظر ثانی یا اپیل کی جاسکے گی۔ فضول نظرثانی /جائزے کی صورت میں جرمانے متعارف کروائے گئے ہیں۔ جبکہ پرانے قواعد کے تحت مخصوص شرائط نہیں تھیں۔
سوموٹو/توہین عدالت مقدمات: آرٹیکل 184(3) یعنی سوموٹو اور توہین عدالت مقدمات کے لئے انٹرا کورٹ اپیل تعارف کرائی گئی ہے جبکہ پرانے قواعد میں یہ سہولت موجود نہ تھی۔
انٹراکورٹ اپیل: نئے قواعد کے تحت انٹرلاکیوٹری آرڈرز کی اپیلیں کم از کم دو ججوں پر مشتمل بینچ سنے گا۔ جبکہ دیگر تمام اپیلیں، بشمول بریت کے خلاف، تین ججوں سے کم بینچ نہیں سنے گا۔
مقدمات کی منتقلی: نئے قواعد کے تحت فیملی کورٹس ایکٹ 1964اور آرٹیکل 186Aکے تحت منتقلی مقدمات کی درخواستیں اب تسلیم شدہ ہوں گی۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ: نئے قواعد کے تحت سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی رجسٹریشن کے لیے تحریری ٹیسٹ ختم کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پانچ سال کی سٹینڈنگ رکھنے والا وکیل رجسٹریشن کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔
یاد رہے یہ تقابلی جائزہ اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے۔ عوام الناس اور خصوصا وکلاء برادری کی سہولت و مطالعہ کے لئے سپریم کورٹ کے نئے قواعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ دہائیوں پرانے قواعد انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں اضافے کا سبب تھے۔ پاکستانی نظام انصاف کو بہتر کرنے کے لئے دور ِحاضر کی تقاضوں خصوصا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعتوں و فوائد کو سمیٹنا اشد ضروری تھا۔ رواں برس سپریم کورٹ میں دائرگی کے لئے ای سسٹم کو متعارف کرانا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دہائی کے اختتام پر پاکستانی اعلیٰ عدلیہ سے متعلقہ قوانین و قواعد کا از سرنو جائزہ لیا جائے تاکہ نئے قوانین و قواعد مرتب کئے جاسکیں۔

جواب دیں

Back to top button