تنہائی

تنہائی
تحریر : علیشبا بگٹی
شاعر کہتا ہے:
اپنی تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
کیا عجب شے ہوں محبت نہیں ہوتی مجھ کو
سخت پہرہ میرے اندر ہی لگا رہتا ہے
سوچنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
خواہش و وصل کہاں، عشق کہاں، باتیں کہاں
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
ہم ایک مصروف اور ہلچل سے بھرپور دنیا میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر ہمارے اندر تنہائی عروج پر ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ خود کو تنہا کیوں محسوس کرتے ہیں ؟
شعر ہے کہ
شہر میں کس سے سخن رکھئے کدھر کو چلئے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلئے
انسان صدیوں سے ایک سوال کا جواب تلاش کرتا آیا ہے۔ ’’ میں کون ہوں اور مجھے کس لیے جینا ہے؟‘‘۔
تنہائی، بے سمتی، اور دوسروں کی منظوری کی جستجو انسان کے وجود کو متزلزل کر دیتی ہے۔ جب فرد اپنے وجود کو دوسروں کے پیمانے سے ناپتا ہے تو اس کی خوشی اور سکون ہمیشہ عارضی رہتے ہیں۔ لیکن جب انسان خود کو اپنی نگاہ میں معتبر بناتا ہے، اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اور ایک مقصد سے جیتا ہے، تو تنہائی بھی ایک بامعنی خاموشی بن جاتی ہے۔
سقراط کا مشہور قول تھا’’ اپنے آپ کو جان لو‘‘۔
یہ فقرہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زندگی کی بنیاد اندرونی شعور میں ہے، نہ کہ بیرونی تعریف میں۔ خودی کی پہچان کے بغیر زندگی ایک غیر ہدایت یافتہ جہاز کی مانند ہے۔ عاں پال سارتر اور کیرکیگارڈ جیسے فلسفیوں کے نزدیک انسان کی آزادی اور مقصد کا سرچشمہ اس کا ذاتی انتخاب ہے۔ جب فرد اپنی سمت خود متعین کرتا ہے، تب ہی وہ ’’ مکمل‘‘ جینے لگتا ہے، ورنہ وہ محض معاشرتی سانچے میں ڈھلا ہوا ایک کردار بن جاتا ہے۔ جرمن فلسفی آرتھر شو پنہاور نے The Hedgehog Dilemmaکے نام سے ایک فلسفہ پیش کیا جسے بعد میں معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے مزید تفصیل سے بیان کیا۔ یہ فلسفہ انسانی تعلقات کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ جُڑنا چاہتے ہیں، لیکن جب یہ قربت حد سے بڑھ جاتی ہے تو اذیت کا باعث بن جاتی ہے۔
رومی نے کہا ’’ جب تم اپنے اندر کا سمندر پا لو گے، تو باہر کی ندیوں کی پیاس ختم ہو جائی گی‘‘۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی کی پرورش ہی زندگی کی معراج ہے، کیونکہ خودی وہ قوت ہے جو انسان کو دوسروں کا محتاج نہیں رہنے دیتی۔ ماہر نفسیات ابراہم میزلَو کے مطابق، انسانی ضروریات کے حرم کی بلند ترین سطح ’’ خود کو حقیقت میں ڈھالنا‘‘ ہے۔ اس مرحلے پر انسان دوسروں کی تعریف یا تردید سے آزاد ہو کر اپنی بہترین شکل میں جیتا ہے۔ ماہر نفسیات کرسٹین نیف کے مطابق، خود سے محبت کا مطلب خود پر فخر کرنا نہیں بلکہ اپنے زخم، کمزوریاں اور ناکامیاں قبول کرتے ہوئے خود کے ساتھ مہربان ہونا ہے۔ یہ اندرونی تعلق ہمیں جذباتی استحکام دیتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ تنہائی ہمیشہ لوگوں کی غیر موجودگی نہیں بلکہ معنی خیز تعلق کی غیر موجودگی ہے۔ جب ہم اپنی ذات سے جڑ جاتے ہیں، تو ہم اپنی ہی سنگت میں مکمل محسوس کرتے ہیں، اور بیرونی خاموشی ہمیں اذیت نہیں بلکہ سکون دیتی ہے۔ انسانی وقار اس وقت پروان چڑھتا ہے جب فرد اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اپنے خواب خود بناتا ہے، اور اپنی ترجیحات خود طے کرتا ہے۔ انٹرنیشنل کنٹرول آف لوکس کے مطابق تنہائی رکھنے والے افراد اپنی کامیابی و ناکامی کا ذمہ دار خود کو سمجھتے ہیں، جبکہ بیرونی کنٹرول رکھنے والے ہمیشہ قسمت، حالات یا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پہلی صورت میں انسان زیادہ پائیدار خوشی محسوس کرتا ہے۔ ذاتی وژن بنانا، سیلف ٹائم، دوسروں کی منظوری سے آزادی، تخلیقی مشغلے جیسے لکھائی، باغبانی یا کوئی بھی کام جو آپ کو ’’ فلو اسٹیٹ‘‘ میں لے آئے۔ خود پر سرمایہ کاری جیسے علم، صحت، مہارت اور روحانیت میں اضافہ کرنا۔ الغرض زندگی کی اصل خوبصورتی اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب انسان اپنی ذات میں مکمل محسوس کرے۔ یہ کیفیت فلسفہ کی روشنی میں وجودی آزادی، نفسیات کی زبان میں سیلف۔ اکچولائزیشن، اور روحانی نقطہ نظر سے خودی کی بیداری کہلاتی ہے۔ زندگی کو اتنا با مقصد بنا لیں کہ تنہائی آپ کے دروازے پر دستک نہ دے۔ ایسی مصروفیت، ایسا وژن، ایسے خواب پالیں جن میں کسی کی منظوری کی ضرورت نہ ہو۔ محبت مانگنے کا کشکول لے کر در در پھرنے سے کہیں بہتر ہے کہ خود سے محبت کرنا سیکھیں۔ خود کو وہ عزت دیں، جو دنیا سے مانگتے ہیں۔ خود کو وہ وقت دیں، جو دوسروں پر بے حساب لٹاتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ خود سے سچا تعلق جوڑ لیتے ہیں، تو باقی ساری دنیا کی خاموشی بھی خوبصورت لگنے لگتی ہے۔ زندگی کی سب سے خوبصورت حالت وہ ہے جب آپ اپنی ذات میں مکمل محسوس کریں بغیر کسی کو قائل کئی، بغیر کسی کو خوش کئے۔ یہ سوچ انسان کی خودی، خود سے تعلق، خود داری، وجودی نظریات اور مقصدیت کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہم اپنی داخلی دنیا کو سنوار لیتے ہیں، تو بیرونی دنیا کا شور ایک بامعنی خاموشی میں بدل جاتا ہے، اور تب ہم نہ تنہائی سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی منظوری کے بھکاری بنتے ہیں۔ کیونکہ ہم جان چکے ہوتے ہیں کہ اصل تعلق، اصل محبت، اور اصل عزت سب سے پہلے خود سے شروع ہوتی ہے۔ اور اپنی تنہائی پر ختم ہوتی ہے۔ اور جس تنہائی میں ذکر و عبادت خدا شامل ہو جائے تو انسان بزرگ ولی بن جاتا ہے۔ اسی لئے مجھی اپنی تنہائی، خاموشی اور خود سے محبت ہے، جو مجھے خود کفیل بناتی ہے اور مجھے اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تنہائی تعلقات کی قید اور دوسروں کی غلامی سے انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ جب میں خود کو تنہا محسوس کرتی ہوں تو خود سے کہتی ہوں۔ اگر تم تنہا ہو تو قابلِ رشک ہو کیونکہ تنہائی بہتر ہے۔ ایسے اپنوں سے جو غیر سے بھی بدتر ہیں۔ ایسے دوستوں سے جو تم کو دشمن سے بھی زیادہ نقصان دیں۔
کسی حالت میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
ہے یہی ایک خرابی مری تنہائی کی







