Column

ماہ نور کا آخری سفر، کراچی کی سڑکوں پر خوابوں کا قتل

ماہ نور کا آخری سفر، کراچی کی سڑکوں پر خوابوں کا قتل
تحریر : جاوید اقبال

شام ڈھل رہی تھی۔ آسمان پر ہلکا سا غبار، سڑک پر تیز گاڑیوں بے رحم بہائو کا شور، جس میں ہر کوئی جلدی میں ہے۔ راشد منہاس روڈ پر لکی ون شاپنگ مال کے سامنے زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی، مگر اگلے چند لمحوں میں وہاں ایسا منظر بننے والا تھا جو ایک گھر کے لیے قیامت، اور شہر کے لیے ایک اور نوحہ ثابت ہوگا۔
شاکر اپنی 22سالہ بیٹی ماہ نور اور 14سالہ بیٹے احمد رضا کو ساتھ لیے موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ ماہ نور کے چہرے پر ایک ایسی چمک جو ہر آنے والے دن کو خوشبو سے بھر دینے کا وعدہ کرتی تھی۔ اگلے ماہ اس کی شادی طے تھی۔ شادی کا جوڑا سل چکا تھا، چوڑیاں خرید لی گئی تھیں، اور ماں کے دل میں بیٹی کو دلہن بنانے کے خواب ہر روز صبح و شام کھلتے تھے۔ پھر اچانک ایک ڈمپر، جو نہ رفتار دیکھ رہا تھا نہ قانون، موت بن کر آیا۔ ایک زوردار دھماکے کی آواز، بریکوں کی چیخ، اور پھر چیختے لوگ۔ لمحے بھر میں سڑک پر خون بہہ گیا۔ جب تک امداد تک پہنچتی انہیں اسپتال لے جایا گیا مگر اسپتال جاتے جاتے ہی احمد رضا اور ماہ نور زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ شدید زخمی شاکر زمین پر تڑپتا ہوا بیٹی اور بیٹے کو ہاتھوں میں تھامنے کی کوشش کرتا رہا۔
اس حادثے کے بعد، مشتعل عوام نے 7ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ سڑک پر دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ یہ غصہ صرف ایک لمحاتی ردعمل نہیں تھا، یہ برسوں کے دبے ہوئے غم اور خوف کا لاوا تھا۔ کیونکہ کراچی میں خونی سڑکوں پر دوڑتے ڈمپر اور بھاری گاڑیاں پہلے بھی کئی گھر اُجاڑ چکے ہیں اور ہر حادثے کے بعد چند دن شور مچتا ہے، اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں، ٹی وی چینلز پر خبریں چلتی ہیں پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔
حادثے کا ایک اور دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ جس ڈرائیور نے یہ قیامت ڈھائی، اس کا ڈرائیونگ لائسنس نو سال پہلے ہی ایکسپائر ہو چکا تھا، اور اس عرصے میں نہ کسی ادارے نے اس کی جانچ کی، نہ ہی اسے سڑک پر گاڑی چلانے سے روکا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اپوزیشن اور حکومت کے نمائندے ایک دوسرے پر الزامات کی توپیں برسانے میں مصروف ہو گئے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، صرف 2024ء میں کراچی میں بھاری گاڑیوں کے باعث 250سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت موٹر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کی تھی۔ ان حادثات میں زیادہ تر رات کے اوقات میں یا رش کے وقت بھاری گاڑیوں کی لاپرواہی شامل تھی۔ ان گاڑیوں کے زیادہ تر ڈرائیور غیر تربیت یافتہ اور بنا لائسنس کے ہوتے ہیں۔ کئی ڈرائیور دن رات مسلسل ڈیوٹی کرتے ہیں، تھکن ان کی توجہ ختم کر دیتی ہے، اور نشہ یا فون استعمال کرنا حادثات کو یقینی بنا دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی Global Status Report on Road Safety 2023کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 1.19 ملین افراد سڑک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے، حالانکہ ان کے پاس دنیا کی صرف 60فیصد گاڑیاں ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹریفک قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھاری گاڑیوں کے لیے الگ روٹس، اوقات، اور سخت فٹنس سرٹیفکیٹ جیسے قوانین اکثر صرف کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر حکومتیں عالمی معیار کے روڈ سیفٹی اقدامات اپنائیں تو حادثات میں 50فیصد تک کمی ممکن ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو کراچی پر اپنا حق جتاتے نہیں تھکتیں، آج اس شہر کے اس زخم پر مرہم کیوں نہیں رکھ رہیں؟ یہ وقت سیاست چمکانے یا لسانی رنگ دینے کا نہیں، بلکہ حکومت وقت کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی کرنے کا ہے۔ لیکن یہاں ہر فریق کریڈٹ لینے کے چکر میں ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ ڈمپر کل بھی آزاد تھے، آج بھی آزاد ہیں۔
حادثے کے بعد لوگوں نے 7ڈمپروں کو جلا دیا۔ یہ عمل درست نہیں، مگر اس کے پیچھے ایک تلخ حقیقت ہے عوام کو یقین ہی نہیں کہ قانون انہیں انصاف دے گا۔ جب نظام اندھا ہو جائے تو لوگ اپنے ہاتھ سے فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ غصہ وقتی ہے، مسئلے کا حل نہیں۔
ماہ نور اکیلی نہیں۔ کچھ ماہ پہلے گلشنِ اقبال میں ایک بھاری گاڑی نے تین بچوں کی ماں کو کچل دیا۔ شیر شاہ میں ایک اسکول وین کو ٹرک نے ٹکر ماری، آٹھ بچے زخمی ہوئے۔ ہر واقعے کے بعد تصویریں وائرل ہوئیں، دعوے کیے گئے، مگر نظام نہیں بدلا۔
اگر ہم واقعی کراچی کو اس عفریت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو صرف بیانات، تعزیتی ٹوئٹس اور رسمی اجلاس کافی نہیں ہوں گے۔ ہمیں فوری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، اور وہ بھی ایسے کہ ان پر سختی سے عملدرآمد ہو۔
سب سے پہلے، بھاری گاڑیوں کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں۔ یہ گاڑیاں شہر کی حدود میں صرف رات 11بجے سے صبح 6بجے تک داخل ہو سکیں، جیسا کہ دبئی اور سنگاپور جیسے ترقی یافتہ شہروں میں کیا جاتا ہے۔ اس سے رش کے اوقات میں حادثات کا خطرہ کم ہو گا اور ٹریفک کی روانی بھی متاثر نہیں ہوگی۔
دوسرا اہم قدم، الگ روٹ اور زونز کا تعین ہے۔ بھاری گاڑیاں صرف مخصوص شاہراہوں پر چلیں اور رہائشی و کمرشل علاقوں میں داخل نہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے ٹریفک پولیس اور شہری حکومت کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ہر بھاری گاڑی کے لیے سالانہ فٹنس سرٹیفکیٹ لازمی کیا جائے اور ان میں GPSسسٹم نصب ہو تاکہ ان کی رفتار اور روٹ کی مسلسل نگرانی کی جا سکے۔ اس سے لاپرواہی اور غیر قانونی راستوں پر جانے کی کوشش کو فوراً روکا جا سکے گا۔
ڈرائیورز کی میڈیکل اور نفسیاتی جانچ بھی لازمی ہونی چاہیے۔ جو ڈرائیور جسمانی یا ذہنی طور پر ڈرائیونگ کے قابل نہ ہوں، انہیں گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے، اور بغیر اس سالانہ ٹیسٹ کے لائسنس کی تجدید نہ ہو۔شہر کی اہم شاہراہوں پر ہائی ریزولوشن سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں جو جدید ٹریفک مانیٹرنگ سسٹم سے جڑے ہوں، تاکہ خلاف ورزی کی صورت میں خودکار جرمانے جاری کیے جا سکیں۔
حادثات میں ملوث ڈرائیور اور گاڑی مالک دونوں کو فوری گرفتار کیا جائے، اور ان کی ضمانت صرف عدالت کی اجازت سے ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، حادثہ کے متاثرین کے لئے ایک ایسا انشورنس اور معاوضہ کی ادائیگی کا نظام قائم کیا جائے جس کے تحت متاثرہ خاندان کو فوری مالی مدد مل سکے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
ڈرائیورز کی تربیت کے لیے خصوصی اسکول قائم کیے جائیں جہاں بھاری گاڑی چلانے کے لیے تربیتی کورس اور ٹیسٹ لازمی ہوں۔ اس کے بغیر کسی کو سڑک پر گاڑی چلانے کی اجازت نہ ہو۔
سڑک پر ہلکی گاڑیاں چلانے کے حوالے سے بھی شہریوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔ اس کے لئے میڈیا، اسکولوں اور کمیونٹیز میں روڈ سیفٹی آگاہی پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ عوام میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کا شعور پیدا ہو۔آخر میں، اقوام متحدہ کے عالمی معیار پر عملدرآمد کیا جائے اور عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا جائے۔ یہ صرف مقامی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، اور اس کے حل کے لیے ہمیں دنیا کے بہترین ماڈلز سے سیکھنا ہوگا۔
ماہ نور کی قبر پر مٹی ابھی گیلی ہے۔ ماں ہر روز اس کا جوڑا دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ کاش یہ سب خواب نہ ہوتے۔ احمد رضا کے کمرے میں اس کی کتابیں کھلی ہیں، جیسے وہ ابھی آ کر پڑھائی شروع کر دے گا۔
کراچی کی سڑکیں آج بھی شور سے بھری ہیں، پہیے آج بھی تیز ہیں، اور لوگ آج بھی جلدی میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اگلی ماہ نور کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا ہم آج فیصلہ کریں گے کہ ان قاتل پہیوں کو قانون کے دائرے میں لائیں گے؟جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا، اس شہر کی ہر سڑک خوابوں کا قبرستان بنی رہے گی۔
جاوید اقبال

جواب دیں

Back to top button