Column

سیلاب کے سائے تلے گلگت بلتستان: حسن سے بربادی تک

سیلاب کے سائے تلے گلگت بلتستان: حسن سے بربادی تک
تحریر: یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان، جو کبھی برف پوش پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور خاموش وادیوں کی جنت کہلاتا تھا، آج موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی غفلت کی مشترکہ مار سہ رہا ہے۔ یہ خطہ اپنی فطری خوبصورتی کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا، مگر اب اس کی پہچان بپھرتے دریائوں، پگھلتے گلیشیئرز اور اجڑتی بستیوں سے جڑ چکی ہے۔ قدرت کی قہر بارش اور گلیشئر کے پگھلنے کی رفتار نے یہاں زندگی کو اجیرن کر دیا ہے، اور سیلاب اب کسی اچانک آنے والے حادثے کے بجائے معمول کی طرح دکھائی دینے لگا ہے۔
اس وقت گوجال اور ہنزہ کے گلیشیئر اپنی معمول سے کہیں زیادہ پانی خارج کر رہے ہیں۔ دریا کی روانی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، یہاں تک کہ کے آئی یو کھاری جیسے علاقے بھی خطرے میں ہیں۔ دریا کے راستے بدل رہے ہیں، اور کئی مقامات پر پانی اپنے پرانے کنارے توڑ کر گائوں کی طرف بڑھ آیا ہے۔ کچھ مقامی لوگ اپنے ایمان اور روایات کے تحت صدقہ و خیرات کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جہاں علمِ عباس علمدار نصب ہے وہاں کے قریب دریا کا رخ بھی بدل گیا۔ لوگ دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گلگت بلتستان کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھے، مگر دعائوں کے ساتھ عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔
یہ تباہی صرف ایک علاقے تک محدود نہیں۔ غذر سے لے کر سکردو، شگر، گانچھے، استور، یاسین، حراموش اور روندو تک پانی اور مٹی کے طوفان نے بستیاں بہا دی ہیں۔ اس بار کی لہر میں کم از کم متعدد جانیں ضائع ہو چکی ہیں، درجنوں افراد زخمی ہیں اور درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ہر طرف ویرانی ہے، اور ہر بستی میں خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ جنازوں کا منظر، زخمیوں کی کراہیں، اور اپنے گھر بار سے محروم ہونے والے چہروں کی خالی آنکھیں دل کو دہلا دیتی ہیں۔
غذر اور گلگت بلتستان کے دیگر حصوں میں یہ قدرتی آفت محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ ایک اجتماعی صدمہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمارے معاشرے کا ہر فرد، خاص طور پر نوجوان، اپنی طاقت اور محبت کو عمل میں بدل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یوتھ اپنی توانائی متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کے لیی وقف کرے، رضاکارانہ خدمات میں حصہ لے اور مشکل گھڑی میں امید اور روشنی کا چراغ جلائے۔
حکومت نے 37علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کی ہے، مگر یہ کافی نہیں۔ گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں مکمل کلائمٹ ایمرجنسی کا اعلان ضروری ہے، تاکہ فوری اور موثر اقدامات کیے جا سکیں۔ یہ خطہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر جب گلیشئر لیک آئوٹ برسٹ فلڈز (GLOFs)اور شدید بارشوں سے پیدا ہونے والے ریلے ہر سال تباہی مچائیں تو یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ ہم خطرناک مقام پر کھڑے ہیں۔
بگروٹ نالے میں درمیانے درجے کا سیلاب آ چکا ہے، جس نے ہامارن کے ساڑھے تین میگاواٹ کے واٹر ٹینکس ملبے سے بھر دئیے ہیں، جبکہ ہوپے کے دو میگاواٹ پاور ہائوس کی پائپ لائن بھی خطرے میں ہے۔ یہ نہ صرف مقامی زندگی بلکہ خطے کی توانائی اور معیشت کے لیے بھی براہِ راست دھچکا ہے۔
اس المیے میں حکومت کی بے بسی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں آج تک کوئی موثر ارلی وارننگ سسٹم نصب نہیں کیا گیا، جو خطرے سے پہلے عوام کو خبردار کرے۔ دیگر ممالک میں جب پانی کا بہائو معمول سے بڑھتا ہے تو سائرن بجتے ہیں، موبائل الرٹس جاری ہوتے ہیں، اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہاں، اس کے برعکس، پانی دروازے تک پہنچ جائے تو ہی لوگوں کو خبر ہوتی ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت انسانی جانوں کے ضیاع میں براہِ راست شریک ہے۔
کچھ لوگ اسے محض ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں، اور کچھ اس میں اخلاقی زوال اور اجتماعی گناہوں کی جھلک دیکھتے ہیں۔ چاہے اس کی وجوہات پر اختلاف ہو، مگر ایک حقیقت سب پر واضح ہے، ہم نے اس زمین اور اس کے وسائل کی حفاظت میں کوتاہی کی ہے۔ جنگلات کی کٹائی، دریاں کے کنارے بے ہنگم تعمیرات، اور قدرتی راستوں کی بندش نے ہر بار آنے والی آفت کو کئی گنا زیادہ مہلک بنا دیا ہے۔
آج صرف خیرات اور دعائوں پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں پائیدار اقدامات کرنے ہوں گے:
متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کا فوری بندوبست۔
مقامی نوجوانوں کی ریسکیو ٹیموں میں تربیت اور شمولیت۔
گلیشیئرز اور دریاں کی مسلسل مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال۔
حفاظتی ڈھانچوں اور مضبوط پلوں کی تعمیر۔
مقامی سطح پر ماحولیاتی شعور کی بیداری۔
گلگت بلتستان کے پہاڑ اب بھی اپنی جگہ کھڑے ہیں، مگر ان کے دامن میں بسنے والے لوگ خوف اور غیر یقینی میں جی رہے ہیں۔ اگر آج ہم نے اس خطے کو بچانے کے لیے سنجیدہ اور طویل المدتی اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں یہ وادیاں صرف پرانی تصویروں اور داستانوں میں باقی رہ جائیں گی۔ اور تب ہم سب یہ سوچتے رہ جائیں گے، کاش ہم نے وقت پر کچھ کر لیا ہوتا۔

جواب دیں

Back to top button