Column

کھیل یا کھلواڑ

کھیل یا کھلواڑ
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
یقین نہیں آتا یہ وہی کھیل ہے کہ جس کے لیے ہم اپنے اہم ترین کام چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جو کبھی ہماری پہلی ترجیح ہوا کرتا تھا۔ جس پر ہم سب دوست بے تکان بولتے تھے۔ میچ سے پہلے ، میچ کے دوران اور میچ کے بعد اتنی دیر تبصرے اور تجزیے پیش ہوتے کہ محلے والے تنگ آ جاتے۔ انہوں نے متفقہ طور پر ہمیں پاگل اور جنونی کہنا شروع کر دیا مگر ۔۔ ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا ۔ نہ ان کی یہ تنقید ہمارا راستہ روک سکتی تھی۔
ہمیں لگتا تھا پاکستان ٹیم کی ہر کامیابی کے پیچھے ہمارا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور ٹیم ہار جاتی تو اس میں انہی کا قصور ہے۔ ہمارے مشوروں پر عمل کرتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ وہ مجرم بن جاتے۔ گالیاں کھاتے اور تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا جو اگلے میچ تک جاری رہتا۔ اب اگر جیت گئے تو سارے قصور معاف اور ہار گئے تو پھر سی ہماری تنقیدی گولہ باری شروع ہو جاتی۔
اپنی نوعمری میں مجھ جیسے لاکھوں لوگوں نے کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے میں جتنا وقت برباد کیا اگر کسی تعمیری کام میں لگاتے تو نا جانے کہاں پہنچ گئے ہوتے۔
انیس سو ستاسی کا ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم جتنی مضبوط تھی اتنی ہی بدقسمت بھی تھی۔ سیمی فائنل میں لمبے بالوں والے سیلم جعفر کے آخری اوور میں بننے والے اٹھارہ رنز ہمیں آج تک نہیں بھولے۔ شارجہ کے میدان میں میاں دار چھکا بھی ایک یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔
بانوے کے ورلڈ کپ میں کمزور پاکستانی ٹیم نے ایک فولادی کپتان کی قیادت میں جیت کر پورے ملک کو کرکٹ کے بخار میں مبتلا کر دیا۔ کرکٹ کا وہ عشق آج تک برقرار ہے۔ گواسکر کا نے جیت کی پیشگوئی کی تھی جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
انیس سو چھیانوے کا ورلڈ کپ مشترکہ طور پر پاکستان بھارت اور سری لنکا میں کھیلا گیا۔ دونوں سیمی فائنل بھارت میں جب کہ فائنل میچ قذافی اسٹیڈیم میں برقی قمقموں کی روشنی میں کھیلا گیا۔
سری لنکا نے جیت کر تاریخ رقم کر ڈالی ۔ اس وقت تک کسی میزان ٹیم نے ٹائٹل نہیں جیتا تھا۔ رچرڈ ہیڈلی کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔
پاکستانیوں کو پوری امید تھی بلکہ یقین تھا کہ اس بار وہی جیتیں گے۔
ہماری ٹیم خاصی مضبوط تھی۔ سعید انور اور عامر سہیل جیسے اوپنرز، سلیم ملک ، میاں دار اور انضمام جیسے مڈل آرڈر بیٹسمین، راشد لطیف جیسے وکٹ کیپر، ثقلین مشتاق، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے بائولرز کی موجودگی ان کے خیال کو سچ ثابت کرنے کو کافی تھی۔
بنگلور میں ہم بھارت سے برے طریقے سے کوارٹر فائنل ہار گئے۔ وقار کو جدیجہ نے دن میں تارے دکھائے اور میچ ہم سے چھین لیا۔ شاندار اوپننگ ہوئی مگر سعید کے آئوٹ ہونے اور عامر سہیل کے بلا دکھا کر چیلنج کرنے اور پھر اسی بال پر بولڈ ہو جانے کے بعد کوئی نہ جم کر کھیل سکا۔ وسیم اکرم کے پراسرار طور پر ان فٹ ہونے کی خبر سن کر ہی لگا کہ ورلڈ کپ گیا ہاتھ سے۔
مجھے اس ہار کا سب سے زیادہ دکھ ہوا۔ ان دنوں میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔ میں نے تسلی سے ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے فرسٹ ائر کا امتحان چھوڑ دیا۔ نتیجتا گھر اور باہر والوں کی باتیں مجھے سننا پڑیں۔
انیس سو ننانوے کا ورلڈ کپ برطانیہ میں ہوا، جو ہم ہار گئے۔ فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جیت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
دو ہزار تین تک میں کرکٹ کو فالو کرتا رہا۔ اس دوران ایک ایک کر کے سب بڑے اسٹار رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے میرا شوق بھی ساتھ لیتے گئے۔
اس کے بعد کوئی اچھی خبر سننے کو نہ مل سکی ( سوائے ایک بار ٹی 20ورلڈ کپ اور ایک بار چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے )۔
آج سوچتا ہوں تو دل غم سے بھر جاتا ہے کہ مجھ جیسے نوجوان نے اپنے نو عمری کے کتنے قیمتی سال اس شوق کی نذر کر دئیے۔ آج جب ٹیم کو بری طرح ہارتا ہوا دیکھتا ہوں تو لگتا ہے جو وقت ضائع کیا تھا اس کا سلسلہ آج جاری و ساری ہے ۔ سو پرانے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں ویسٹ انڈیز کو کالی آندھی کہا جاتا تھا۔ اس کے فاسٹ بائولرز کی دہشت سے بلے باز تھر تھر کانپتے تھی۔ لیکن یہ ان کا ماضی ہے، آج کی صورتحال یہ ہے کہ انٹرنیشنل رینکنگ میں یہ ٹیم بے چاری آخری نمبروں پر ہے۔ تنزلی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں آسڑیلیا نے ٹی 20میں ان کا کلین سویپ کیا ہے۔
ہماری قومی ٹیم ایسی ٹیم سے ون ڈے اور ٹی 20دونوں سیریز ہار گئی ہے۔ ٹی 20میں نوجوان ہارے اور ون ڈے میں تجربہ کار۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آخری ون ڈے میں ہوپ کا سکور ہماری پوری ٹیم سے زیادہ تھا۔ وہ اکیلا سنچری کر گیا اور ہمارے گیارہ مل کر بھی سو کا ہندسہ نہ چھو سکے۔ پورے اوور تک نہ کھیل سکے۔ دو سو دو رنز کی ہار کسی تھپڑ کی طرح محسوس ہوئی۔
کرکٹ کے شائقین محسن نقوی کو دعائیں دے رہے ہیں۔
نان پروفیشنل لوگوں نے ٹیم کا سوا ستیا ناس کر ڈالا ہے۔ پرچی مافیا جتنا آج طاقتور ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا ۔
موجودہ سیٹ کی موجودگی میں ٹیم کا بہتر ہو جاتا بہت بڑا معجزہ ہو گا، سو اس کی امید نہیں ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ کرکٹ پر سب کچھ برباد کرنے سے بہت بہتر ہو گا، دیگر کھیلوں پر پیسہ خرچ جایا جائے۔ ہاکی، اسکواش، ٹیبل ٹینس، والی بال، کبڈی، باکسنگ اور اتھلیٹکس وغیرہ پر فوکس کیا جائے۔ ان انفرادی و اجتماعی کھیلوں پر توجہ دی جائے جو اولمپکس کا حصہ ہیں۔
ارشد ندیم کے ایک گولڈ میڈل نے قوم کو کتنا خوش کیا تھا ، کیا آپ بھول گئے۔
چورانوے میں ہم چار کھیلوں میں عالمی چیمپئن تھے اور آج ۔۔ آج کسی ایک میں نہیں۔
اب اگر ہم یہ کہیں کہ محسن نقوی ( ذکاء اشرف، نجم سیٹھی وغیرہ ) جیسے اتائیوں کو نکال باہر کیا جائے، تو ظاہر ہے ہماری سنی نہیں جائے گی۔
بس خواہش یہ ہے کہ قوم کے جذبات سے نہ کھلواڑ نہ کیا جائے اور کرکٹ کو اس کے حال پر چھوڑ کر باقی کھیلوں پر توجہ دی جائے۔
تھوڑے کہے کو زیادہ جانئے گا
یہ میری زندگی کا سب سے مختصر کالم ہے۔ جب لفظ ہی ساتھ نہ دیں تو لکھنے والا کیا کرے ؟

جواب دیں

Back to top button