انسانی المیوں کو رونما ہونے سے روکیے

انسانی المیوں کو رونما ہونے سے روکیے
تحریر: رفیع صحرائی
ابھی ہم خیبرپختونخوا میں سیلاب، بارشوں اور کلائوڈ برسٹ کے نتیجے میں 300سے زائد انسانی جانوں کے لقمہ اجل بن جانے کے المناک صدمے سے نہیں نکل پائے کہ پنجاب میں دریائے ستلج میں شدید طغیانی کی صورتحال نے آنے والی ممکنہ تباہی کے بارے میں فکرمند کر دیا ہے۔
گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کو ضلع قصور میں واقع دریائے ستلج کا حفاظتی بند متعدد جگہوں سے ٹوٹ گیا جس سے کئی دیہات پانی کی لپیٹ میں آ گئے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے دریائے ستلج میں سیلاب کا الرٹ دیا جا چکا تھا۔ جمعہ کے روز بھارت کی طرف سے 65000کیوسک پانی کا چھوڑا جانے والا ریلا جب ہیڈ گنڈا سنگھ کے مقام پر پہنچا تو اس کی وجہ سے پانی کی سطح 19فٹ تک جا پہنچی جس سے نچلے درجے کا سیلاب آ گیا۔ اس سیلاب کی وجہ سے اب تک درجنوں بستیاں اور سیکڑوں ایکڑ اراضی زیرِ آب آ چکی ہے۔ سیلابی پانی ضلع اوکاڑا کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ ضلع اوکاڑا میں ڈپٹی کمشنر سمیت تمام انتظامیہ ریڈ الرٹ ہے۔ منڈی احمد آباد کے نواحی گائوں اٹاری کے مقام پر فلڈ ریلیف کیمپ کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ضلعی انتظامیہ صورتحال پر لمحہ بہ لمحہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ قصور کی ضلعی انتظامیہ اس وقت بہت متحرک ہے۔ قصور میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیزی سے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے دیہات کو مکینوں سے خالی کروا لیا گیا ہے تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے مزید پانی چھوڑا گیا تو صورتحال خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اٹاری کے مقام پر بھی اس وقت سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریکٹروں کے ساتھ مٹی کے عارضی بند بنائے ہیں جو موجودہ صورتحال میں پانی کے پھیلا کو روکنے اور فصلوں کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے اگر مزید پانی چھوڑا گیا تو یہ عارضی بند اس میں بہہ جائیں گے۔ بہت عرصہ پہلے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے دریائے ستلج پر ایک بند بنوایا تھا۔ شدید سیلابی صورتحال میں وہی بند منڈی احمد آباد کے متعدد دیہات اور سیکڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو بچانے کے کام آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بند سے بہت آگے یعنی دریائے ستلج کے کناروں کے قریب ہیڈ گنڈا سنگھ سے لے کر ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ تک طویل بند بنایا جائے تاکہ ہر سال آنے والے سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مویشیوں اور انسانی جانوں کے ضیاع اور فصلوں کی تباہی سے بچا جا سکے۔ وفاقی وزیر آبی وسائل میاں معین خان وٹو کا اوکاڑا کی حدود میں حلقہ انتخاب دریائے ستلج کا علاقہ ہے۔ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کی تکالیف سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہیں دریائے ستلج پر بند باندھنے کی حکومت سے منظوری کے لیے ذاتی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم قیامِ پاکستان سے ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ہر سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں دریاں میں سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہر سال بارشیں سیلاب بننے لگی ہیں اور سیلاب کا دائرہ کار بڑھتا جا رہا ہے۔ پہاڑوں پر گلیشیئرز تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ہماری حکومتوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ سارا سال ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر نقصان اور تباہی کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ جب سیکڑوں جانوں کا ضیاع اور ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں تو کشکول تھام کر پوری دنیا میں امداد کے نام پر بھیک مانگنے کو نکل پڑتی ہیں۔
کسی حکومت نے اس پر کبھی سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ موسمی تباہ کاریاں صرف قدرتی آفات ہیں یا ہماری عاقبت نااندیشیوں کی سزا بن کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور اشرافیہ نے ہمیشہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کیا۔ یہ لوگ فطرت کے ساتھ ظلم کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ ذاتی لالچ، حرص اور منافع کی خاطر جنگلات کا صفایا کر دیا گیا۔ دریاں کا رخ موڑ دیا اور پہاڑوں کو کاٹ ڈالا۔ فطرت کو غیرمتوازن کر کے انسانی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے ملین، بلین اور ٹریلین درخت لگانے کے وعدے اور دعوے کیے مگر کاغذوں میں وہ درخت لگا کر ان منصوبوں کے فنڈز اپنی جیب میں ڈال لیے۔ زمین اپنے سینے ہر ان درختوں کے وجود کو تاحال ترس رہی ہے۔ سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات کو ہمارے حکمرانوں نے اپاہج بچے بنایا ہوا ہے جنہیں دکھا کر دنیا بھر سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ جن کے نام پر یہ بھیک اکٹھی کی جاتی ہے انہیں اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بات صرف حکمرانوں کی نہیں۔ سیاست دان اپوزیشن میں رہ کر بھی قدرتی آفات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ 2022ء کے تاریخی سیلاب کے موقع پر ہمارے ایک سابق حکمران نے سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر ٹی وی چینلز پر ٹیلی تھون کے ذریعے کئی بلین روپے اکٹھے کیے اور اس رقم سے حکومت کے خلاف 70جلسوں کی سیریز منعقد کر ڈالی۔ کسی ایک سیلاب زدہ شخص کی اس رقم سے مدد نہ کی جا سکی۔
حکمرانوں اور سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ اپنی ذات اور سیاست سے بلند ہو کر ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں کا بھی سوچیں۔ ملک اور اس کے باسیوں سے ہی ان کی حکمرانی اور سیاست وابستہ ہے۔ جاپان میں روزانہ زلزلے آتے ہیں۔ وہاں کی حکومتوں نے کبھی امداد یا بھیک نہیں مانگی۔ انہوں نے اپنے ملک میں زلزلہ پروف بلڈنگز بنا لیں۔ ہم بھی ڈیمز اور بند بنا کر سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکتے ہیں۔ ضرورت خلوصِ نیت، اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کی ہے۔





