Columnمحمد مبشر انوار

جنگ کا متبادل

جنگ کا متبادل
محمد مبشر انوار
صدر ٹرمپ ویسے تو جنگیں ختم کرانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے لیکن تاحال دو ایسی جنگیں ہیں، جن پر وہ قابو پانے یا رکوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، حالانکہ درحقیقت وہی جنگیں ایسی ہیں کہ جن سے امن عالم کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں، اور وہ تاحال ختم نہیں ہو سکی۔ اس میں صدر ٹرمپ کی کاوشوں میں کہیں کوئی کھوٹ ہے یا دونوں ممالک ہی ایسے ضدی اور سرپھرے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی ’’ عزت افزائی‘‘ کرنے پر تلے ہیں اور کسی بھی صورت اپنی ضد چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، خواہ اس کی قیمت انہیں کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔ یہاں یہ، امر برمحل ہے کہ پاک، بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ صرف صدر ٹرمپ کو نہیں جاتا بلکہ پس پردہ بظاہر تاحال پاکستانی رجیم کا تسلیم کیا جانا اور دیگر تجارتی امور پر اظہار رضامندی بلکہ پیشکش، اہم ترین جزو ہے کہ جس کے بغیر ممکنہ طور پر پاکستان جنگ بندی پر مائل نہ ہوتا بلکہ جو موقع پاکستان کو میسر آیا تھا، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا اور ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کا خواب دیکھنے والے و راگنی گانے والوں کو مکمل طور پر خاموش کروا دیا جاتا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مستقبل قریب میں متوقع طور پر بھارتی مہم جوئی کے جواب میں یہ کام نہیں ہو گا بلکہ زیادہ موثر اور بہتر طریقے سے ممکن ہو گا کہ تب صدر ٹرمپ کی بات میں بھی وہ اہمیت باقی نہیں رہے گی اور رہی بات بھارتی قوت و طاقت کی، تو اس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ چند ماہ میں کوئی ایسی جوہری تبدیلی بھارتی جارحیت میں نہیں آ سکتی کہ جس کی بناء پر وہ پاکستانی دفاعی نظام کو تلپٹ کرکے، اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے۔ درحقیقت اتنے کم وقت میں عسکری طاقت کو ازسر نو یا کم از کم مخالف کی کسی کمزوری کو تاڑ کر، اس کے مقابل نظام تیار یا اختیار کرنا تقریبا ناممکن ہے اور اگر اس کے باوجود بھارت فقط اپنی خفت و ہزیمت کو مٹانے کے لئے، ایسی کوئی مہم جوئی کرتا ہے تو یقینی طور پر پاکستانی جواب ماضی کی نسبت زیادہ سخت اور نقصان دہ ہو گا۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد، حالیہ کشیدگی میں بھارت کو واضح اور مکمل برتری کے ساتھ شکست دی ہے، ان تمام تخمینوں کو صفر کر دیا ہے جو پاکستان اور بھارت کے موازنے پر کئے جاتے تھے۔ بھارتی عددی اکثریت یا اس کی عسکری طاقت کا زعم بری طرح زمین بوس کیا جا چکا ہے اور قوی امید ہے کہ پاکستانی دفاعی ادارے کسی بھی طور اپنے فرض منصبی سے غافل نہیں، بھارتی کوششوں و کاوشوں پر گہری نظر رکھے ہوئے، ہر نئی عسکری چال کو بخوبی دیکھ بھی رہے ہیں اور اس کے موثر توڑ کے لئے بروئے کار بھی آ رہے ہیں۔ طرہ یہ کہ حالیہ پاکستانی کارکردگی کے بعد دنیا بالعموم اور چین بالخصوص پاکستان پر بہت مہربان دکھائی دیتا ہے اور اپنے جدید ترین جنگی ہتھیار پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے حوالے کر رہا ہے کہ چین کے لئے یہ امر قابل اطمینان ہے کہ ایک طرف وہ اپنے ہتھیاروں کو پیش ورانہ ماہر فوج سے ٹیسٹ کر رہا ہے تو دوسری طرف کامیاب نتائج سے عالمی منڈی میں اس کے ہتھیاروں کی ساکھ نہ صرف بہتر ہورہی ہے بلکہ یورپی و امریکی ہتھیار کی مارکیٹ میں واضح کمی اور چینی ہتھیاروں میں برتری دکھائی دے رہی ہے۔
بہرکیف صدر ٹرمپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف وہ مسلم ممالک کو تو اپنے اثر و رسوخ کے تحت کامیاب جنگوں میں روکنے میں کامیاب ہے لیکن دوسری طرف روس کو باربار تنبیہ کرنے کے باوجود روسی جارحیت کو یوکرین میں روکنے میں ناکام رہا ہے، گو کہ ٹرمپ کی ہر تنبیہ کے بعد، ڈیڈ لائن جاری کرنے کے بعد، روس کے حملوں میں نہ صرف تیزی بلکہ شدت بھی دکھائی دیتی ہے جیسے روس کو علم ہو کہ گو اس ڈیڈ لائن کا کوئی اثر نہیں، کوئی اہمیت نہیں لیکن اس کے باوجود جتنی جلد ہو سکے، یوکرین کو فتح کر لیا جائے۔ اس جنگ کے دوران ایسا نہیں کہ یوکرین بالکل خاموش ہے یا وہ مزاحمت نہیں کر رہا، یوکرین کی مزاحمت تو خیر روس کو بھی کو حیران کئے ہوئے ہے، کہ یوکرین کی جانب سے روس کے اندر ایسی جارحانہ کارروائیاں کی گئی ہیں، جنہوں نے روس کو ششدر کر رکھا ہے اور روس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ یوکرین کی اس مزاحمت کو جلد از جلد ختم کیا جائے لیکن زمینی حقائق اسے کے برعکس نظر آ رہے ہیں اور نہیں لگتا کہ روس یوکرین پر مکمل طور پر قابض ہوسکے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ روس کی جانب سے فتح کئے گئے یوکرینی علاقوں پر روس کا دعویٰ تسلیم کرکے، اسے مزید جارحیت سے روکنے پر آمادہ کر لیں لیکن کیا روس اس کے لئے تیار ہو گا یا اس کے بدلے روس کو، ان مفتوحہ علاقوں کے کیا ملے گا؟۔ ایسی ہی صورتحال غزہ میں بھی دیکھی جارہی ہے کہ اسرائیل مسلسل وارننگز کے باوجود، وقتی جنگ بندی کے دوران بھی، غزہ میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ٹرمپ اس کا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری جنگی جرائم، نیتن یاہو کے خلاف عالمی عدالت جرائم کی طرف سے مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود، امریکہ نہ صرف نیتن یاہو کی میزبانی کرتا ہے بلکہ مزید وقت دے کر، نسل کشی کے خلاف خاموش تماشائی بنا ہے۔ ٹرمپ کے اس دوغلے کردار سے، امریکی حلیف بھی انتہائی مشکل سے دوچار ہیں اور انہیں اپنے چہرے بچانے مشکل ہو رہے ہیں کہ خود ساختہ مہذب دنیا کے دعوے داروں کے لئے اسرائیلی جنگی جرائم پر اسرائیل کا دفاع مشکل تر ہوتا جارہا ہے، جبکہ اسرائیل کسی بھی صورت اپنے مذموم عزائم سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
گزشتہ روز ٹرمپ اور پیوٹن کی الاسکا میں ہونے والی اہم ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا لیکن روس کے صدر کے ساتھ یوکرین مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ جبکہ روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے میں خلوص دل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر زور دیا کہ وہ کوئی معاہدہ کر لیں۔ قوی امکان یہی ہے کہ روسی صدر بہرطور، یوکرین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ٹرمپ سے ان کی تصدیق کروا سکیں اور ان علاقوں میں روس پہلے ہی ایک طرف یوکرین کو لینڈ لاک ملک میں تبدیل کر چکا ہے تو دوسری طرف یوکرین کے فتح کئے جانے والے بیشتر علاقے، قدرتی معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں، جن کی ضرورت جدید دور میں ہر بڑے ملک کو ہے اور جس کے متعلق پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکہ ان علاقوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو روس کو کوئی اعتراض نہیں۔ درحقیقت یہ پیشکش انتہائی غیر متوقع ہے کہ ایک طرف امریکہ و روس ایک دوسرے کے خلاف، سرعام اور خفیہ طورپر، برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف روس کھلم کھلا امریکہ کو اپنے مفتوحہ علاقوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری بھی ایسی معدنیات کے لئے، جس کی ساری دنیا کو اشد ضرورت ہے۔ برسبیل تذکرہ شنید ہے کہ ایسی ہی پیشکش پاکستان بھی امریکہ کو کر چکا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسی نایاب معدنیات کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے، جس کو پاکستان ازخود نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا، جو بظاہر ایک بہانہ ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو یقینی طور پر ان معدنیات کو پاکستانی مفاد میں ازخود نکالنے کا بندوبست کر سکتا ہے، لیکن پس پردہ کئی ایک معاملات ایسے ہیں کہ فی الوقت امریکہ کو خوش کیا جانا ضروری ہے لہذا ان معدنیات کے حصول میں امریکہ کو پیشکش کی جاچکی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں جاری حالیہ آپریشن کا مقصد بھی بہرحال یہی ہے کہ ایک طرف اس علاقے سے دہشت گردوں کو مکمل طور پر پاک کیا جائے تا کہ امریکی کان کنی کے عملے پر بعینہ سی پیک پر متعین چینی عملے کی طرح حملے نہ ہوں۔ شنید یہ بھی ہے کہ امریکہ کی جانب سے روس کو الاسکا میں نایاب معدنیات کی تلاش کی بھی اجازت دی جائے گی، جس سے دونوں ممالک بہرطور قریب آئیں گے، کتنی عجیب بات ہے کہ الاسکا، امریکی علاقہ/ریاست ہے لیکن امریکہ وہاں معدنیات کی تلاش کا کام روس کو دے رہا ہے جبکہ یوکرین کے مفتوحہ علاقے روس کا حصہ ہیں، لیکن وہ معدنیات کی تلاش کا کام امریکی کمپنیوں کو دے رہا ہے، یوں دونوں ممالک اپنے اپنے علاقوں میں ایک دوسرے کی کمپنیوں /سرمایہ کاری کو یقینی بنا رہے ہیں اور روس کے امریکی علاقے میں سرمایہ کاری کے بعد، چین بھی بہرطور یہاں موجود ہو گا۔ یوں ان تینوں ممالک کے مفادات ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اور بظاہر تنازعات باقی نہیں رہیں گے لیکن مشرق وسطیٰ کا مسئلہ کہیں زیر بحث دکھائی نہیں دے رہا، ممکنہ طور پر نیتن یاہو کی نافرمانی پر اسے مسلم ریاستوں پر چھوڑ دیا جائے گا کہ جو چاہے سلوک کریں یا امریکہ مسلم نسل کشی میں اس کی پشت پناہی جاری رکھے گا؟۔ بہرطور اگر ٹرمپ اس کارزار مذاکرات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ نوبل انعام کے لئے روس کی جانب سے بھی تجویز کر دئیے جائیں اور ٹرمپ کی روس و چین کے ساتھ تجارتی پالیسی ممکنہ طور پر دنیا میں جنگ بندی کروا سکے، جنگ کا متبادل بن سکے، واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

Back to top button