ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئے

ذرا سوچئے
موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب: چیلنجز اور ذمہ داریاں
امتیاز احمد شاد
خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں حالیہ دنوں رونما ہونے والی قدرتی آفات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اچانک ہونے والے کلائوڈ برسٹ اور تباہ کن سیلاب نے جہاں قیمتی انسانی جانیں نگل لیں وہیں ہزاروں خاندان بے گھر اور بنیادی ضروریات سے محروم ہو گئے۔ متاثرہ علاقوں کی سڑکیں اور پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، زرعی زمینیں بہہ گئیں اور بستیاں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال اس تلخ حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب کوئی مستقبل کا خطرہ نہیں، بلکہ موجودہ عہد کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان واقعات کو وقتی حادثہ نہ سمجھیں بلکہ انہیں ایک وارننگ کے طور پر لیں اور ریاست، ادارے اور عوام مل کر ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی ترتیب دیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، بارشوں کے غیر متوقع اور شدید سلسلوں اور کلائوڈ برسٹ جیسے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ شمالی اور پہاڑی علاقے، خصوصاً خیبر پختونخواہ اور کشمیر، زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہاں معمولی بارش بھی ندی نالوں کو طوفانی ریلوں میں بدل دیتی ہے۔ ان خطوں میں آبادی کا پھیلا، غیر منصوبہ بندی پر مبنی تعمیرات اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں یہ قابل ذکر ہے کہ پاک فوج اور دیگر ادارے فوری طور پر امدادی سرگرمیوں میں متحرک ہوئے۔ ریسکیو 1122اور مقامی حکومتوں کے عملے نے متاثرین تک رسائی کی کوشش کی جبکہ فوج نے نہ صرف ریلیف آپریشن شروع کیا بلکہ اپنی ایک دن کی تنخواہ عطیہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ یہ قدم اس بات کی علامت ہے کہ مشکل وقت میں ادارے اور افراد مل کر انسانیت کا فرض ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایمرجنسی نافذ کی، ریلیف کیمپ قائم کیے اور متاثرہ خاندانوں کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کیں۔ کچھ علاقوں میں خوراک کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ بحالی کے لیے خصوصی ٹیمیں بھی بھیجی گئیں۔
تاہم یہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مستقل اور موثر نظام کی شدید کمی ہے۔ ندی نالوں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات روکنے کے قوانین موجود ضرور ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ غربت اور پسماندگی کی شکار عوام کے لیے ذاتی سطح پر حفاظتی اقدامات ممکن نہیں، اس لیے ریاستی سطح پر مضبوط اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ماضی میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ ریلیف سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بانٹا گیا اور حقیقی مستحقین محروم رہ گئے۔ اس قسم کی بدانتظامی عوامی اعتماد کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ دوسری طرف، ناقص انفراسٹرکچر اور غیر ذمہ دارانہ تعمیرات آفات کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔مزید برآں، عام عوام میں شعور کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بیشتر لوگ خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور سیلابی نالوں یا ڈھلوانوں کے قریب مکانات تعمیر کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً معمولی بارش بھی بڑے سانحے میں بدل جاتی ہے۔یہ صرف حکومت یا ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ آفات سے نمٹیں۔ معاشرے کا ہر فرد اس مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ صاحب حیثیت لوگ مالی عطیات دے سکتے ہیں، جبکہ عام شہری اپنے وقت اور محنت کے ذریعے ریلیف سرگرمیوں میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو رضاکارانہ طور پر کیمپوں میں کام کرنا چاہیے اور طبی ماہرین کو متاثرین کو مفت سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ قومی یکجہتی اور باہمی تعاون ہی اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی اور سائنسی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔
سب سے پہلے ایک مربوط اور فعال نظام جو قبل از وقت خبردار کرے اور عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔ ندی نالوں کے قریب غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے سخت اقدامات، حفاظتی پشتے اور ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ شعور دینا کہ وہ کس طرح اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور کس قسم کے حفاظتی اقدامات بے حد ضروری ہیں۔ جنگلات کی کٹائی روک کر اور نئے درخت لگا کر زمین کو مضبوط بنانا اولین ترجیع میں شامل کیا جائے، تاکہ بارش کے پانی کو جذب کیا جا سکے۔ پاکستان کو عالمی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر کلائمیٹ چینج کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔
شمالی علاقہ جات میں آنے والے حالیہ سیلاب اور کلائوڈ برسٹ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ ایک سنگین حقیقت ہے۔ اگر ہم نے اپنی ترجیحات اور طرزِ زندگی نہ بدلی تو آنے والے برسوں میں نقصانات ناقابلِ تلافی ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وقتی ریلیف کے بجائے ایک جامع اور دیرپا حکمت عملی اپنائے، شفاف اور تیز رفتار امدادی نظام قائم کرے اور انفراسٹرکچر کو اس قابل بنائے کہ مستقبل کی آفات کا مقابلہ کر سکے۔دوسری جانب عوام کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ مشکل کی اس گھڑی میں ذاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر متاثرہ خاندانوں کی مدد کرنا ہمارا قومی و اخلاقی فریضہ ہے۔ عطیات دینا، رضاکارانہ خدمات سرانجام دینا اور یکجہتی کا مظاہرہ ایک مضبوط معاشرے کی علامت ہے۔ اگر ہر فرد اپنے حصے کا کردار ادا کرے تو ہم نہ صرف موجودہ بحران پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ مستقبل کی آفات کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی صلاحیت بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ وقت صرف تنقید کرنے کا نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر ہم آج ماحول دوست پالیسیاں اپنا لیں، قدرتی وسائل کا درست استعمال کریں اور متحد ہو کر موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کریں تو آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور پائیدار پاکستان دے سکتے ہیں، ایسا پاکستان جو ہر بحران کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

جواب دیں

Back to top button