بروکن ہائوس سنڈروم

بروکن ہائوس سنڈروم!!!
عقیل انجم اعوان
میں نے اپنے چھببیس سالہ صحافتی کیریئر اور تئیس سالہ ازدواجی سفر میں جو سب سے بڑا سبق سیکھا وہ کتابوں کے صفحوں پر نہیں بلکہ زندگی کی گلیوں میں بکھرا ملا۔ یہ سبق ہے ’’ بروکن ہائوس سنڈروم‘‘ یا’’ ٹوٹی ہوئی چھت‘‘ کے انسانی کردار اور معاشرتی رویوں پر تباہ کن اثرات کا۔ یہ اصطلاح شاید عام لوگوں کے لیے نئی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ خاموش زہر ہے جو ہمارے گھروں کی چار دیواری میں رِستا ہے اور آنے والی نسلوں کے خون میں شامل ہو کر ان کی سوچ، عمل اور مستقبل کو مسموم کر دیتا ہے۔ بروکن ہائوس سنڈروم کوئی طبی بیماری نہیں بلکہ ایک سماجی و ماحولیاتی کیفیت ہے۔ یہ اس وقت جنم لیتی ہے جب بچے کا گھر جو اس کے لیے محبت، تحفظ اور سکون کی پناہ گاہ ہونا چاہیے، میاں بیوی کے مسلسل جھگڑوں، تشدد، بے اعتنائی یا بچھڑنے کی اذیت سے بھر جائے۔ پاکستان میں ایسے گھروں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خاندانی عدالتوں میں روزانہ سیکڑوں مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں اور طلاق کی شرح شہروں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ گھریلو تشدد کے کیسز، والدین کی علیحدگی یا کسی ایک کی غیر موجودگی، یہ سب اس سنڈروم کی جڑیں ہیں۔ بین الاقوامی تحقیق اس رجحان کو پوری شدت سے تسلیم کرتی ہے۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA)کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق ایسے بچے جو مستقل گھریلو تنازعات، طلاق یا جذباتی استحصال کا سامنا کرتے ہیں ان میں مستقبل میں جرم کی طرف مائل ہونے، تعلیم میں ناکامی اور ذہنی امراض کا امکان عام بچوں کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی 2019 ء کی ایک تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ شہری متوسط طبقے کے بچے اس تنائو کا زیادہ شکار ہیں کیونکہ وہ بظاہر بہتر سہولیات میں پلتے ہیں مگر گھر کا ماحول زہر آلود ہوتا ہے۔ یہ سنڈروم لڑکوں اور لڑکیوں پر یکساں نہیں بلکہ الگ انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔ لڑکے کم عمری میں ہی عدم تحفظ اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والد کی غیر موجودگی میں بیٹے کی شناخت کا بحران شروع ہوتا ہے وہ خود کو ادھورا محسوس کرتا ہے۔ یہ خلا اکثر غصے، ضد اور بے راہ روی میں بدلتا ہے۔ ایسے لڑکے تعلیم سے بیزار ہو جاتے ہیں، منشیات کی طرف مائل ہوتے ہیں اور نظم و ضبط سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ سب انہیں جرائم کی دنیا تک لے جاتا ہے۔ میں نے ایسے کئی نوجوانوں سے ملاقات کی جو یہ اعتراف کرتے تھے کہ ان کو بغاوت کا پہلا سبق اپنے گھر سے ملا۔ لڑکیاں اس کیفیت کو زیادہ گہرائی سے محسوس کرتی ہیں۔ ان کے دل میں خود سے نفرت، محبت نہ ملنے کا احساس اور شدید عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ یہ احساس انہیں ڈپریشن میں دھکیل دیتا ہے ان کی شخصیت سکڑ جاتی ہے، خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں وقت سے پہلے بالغ ہو جاتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ کچھ میں انتقام کا جذبہ جنم لیتا ہے وہ والدین کو سزا دینا چاہتی ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا پر اپنی محرومی اور غصہ غیر اخلاقی رویوں میں ظاہر کرتی ہیں۔ کچھ تعلقات میں ضرورت سے زیادہ چپکنے والی بن جاتی ہیں اور کچھ بالکل سرد مہری اختیار کر لیتی ہیں تاکہ مزید زخم نہ کھائیں۔ یہ سب صرف جذباتی یا رویہ جاتی تبدیلیاں نہیں بلکہ دماغ میں ہونے والے کیمیائی ردعمل کا نتیجہ ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ایسے بچوں کے دماغ میں امیگڈالا جو خوف اور غصے کے ردعمل کو کنٹرول کرتا ہے غیر معمولی حد تک سرگرم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطرے یا تنازع پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیتے ہیں اور یہ عادت بالغ ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اس دائرے کو کیسے توڑ سکتے ہیں؟ سب سے پہلا قدم والدین کا یہ شعور ہے کہ ان کی نالائقیاں اور انا کی جنگ براہِ راست بچوں کے مستقبل کو تباہ کرتی ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے بچوں کو اس دنیا میں لاتے ہیں اس لیے ان کی جسمانی اور ذہنی فلاح ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ دولت یا آسائشوں کا سوال نہیں بلکہ کردار کا سوال ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات فطری ہیں مگر بالغ ذہن رکھنے والے لوگ انہیں بچوں کی نظروں سے دور رکھتے ہیں۔ جھگڑے بند کمرے میں حل کیے جا سکتے ہیں۔ گالم گلوچ یا تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر والدین اپنے مسائل پر بات کرنے کا فن سیکھ لیں تو آدھی لڑائیاں ختم ہو جائیں۔ بچوں کو وقت دینا سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ بچے کے لیے والدین کا ساتھ اور توجہ قیمتی ترین تحفہ ہے۔ کہانیاں سنانا، کھیلنا، ہنسنا، بچوں جیسی حرکات کرنا یہ سب بظاہر بچگانہ مگر درحقیقت بالغ رویہ ہے۔ بچے کے چہرے کی مسکراہٹ وہ دوا ہے جو بڑے بڑے زخم بھر سکتی ہے۔ بعض اوقات علیحدگی یا طلاق ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں بھی بچوں پر اثر کم کیا جا سکتا ہے اگر والدین ان کے ساتھ وقت گزاریں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ اب بھی دونوں کے لیے سب سے اہم ہیں۔ میں نے کئی والدین کو ایسا کرتے دیکھا ہے اور ان کے بچے نسبتاً صحت مند شخصیت کے مالک بنے۔ یہاں مردوں اور عورتوں سے الگ الگ مخاطب ہونا ضروری ہے۔ مردوں سے کہوں گا کہ آپ بطور باپ اپنے بچے کے ہیرو ہیں۔ بیٹے آپ کو دیکھ کر مردانگی کا مطلب سیکھتے ہیں، بیٹیاں آپ سے یہ سیکھتی ہیں کہ عورت کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔ اگر آپ واحد کفیل ہیں تو آپ کا اثر دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ غصہ اور بدکلامی بچوں کے دل پر ایسے زخم چھوڑتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔ عورتوں سے گزارش ہے کہ آپ کا ضبط اور تحمل بچے کے لیے ڈھال بن سکتا ہے۔ نو مہینے کی قربانی اس لیے نہیں تھی کہ بچہ ایک بکھرے گھر میں پروان چڑھے۔ کبھی کبھی خوشگوار ماحول میں بات چیت اور مسائل پر مکالمہ بڑے بکھرائو کو روک دیتا ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کے لیے جان دینے کو تیار ہوتے ہیں، مگر افسوس کہ بعض اوقات انہی بچوں کی زندگی برباد
کرنے کا سبب بھی وہی بنتے ہیں۔ بروکن ہائوس سنڈروم ایک ایسی خاموش وبا ہے جو ہماری نسلوں کی بنیادیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ اگر ہم نے اس پر بات نہ کی، حل نہ نکالا اور اپنی ذات سے آغاز نہ کیا تو یہ دائرہ ٹوٹے گا نہیں۔ بچوں کو وہ گھر دیں جہاں چھت محبت سے جڑی ہو، جہاں دیواریں اعتماد کی ہوں اور جہاں زندگی کی آندھیاں بھی سکون کے چراغ نہ بجھا سکیں۔





