آزادی
آزادی
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
آزادی پر آزادی سے کچھ کہنے سے قبل ایک تاریخی واقعہ پیش کرتے ہیں۔
امام موسیٰ کاظمؒ جب بغداد میں پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو ایک دن راستے سے گزر رہے تھے کہ ایک گھر کے اندر رقص کی محفل سجی ہوئی تھی اور گانے کی آواز باہر آرہی تھی، اس وقت گھر کے دروازے سے ایک کنیز کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے باہر آئی۔ امامؒ نے اس سے پوچھا کہ یہ مکان کسی بندے کا ہے یا آزاد کا؟، اس نے فوراً جواب دیا کہ آزاد کا۔ آپؒ نے فرمایا کہ بے شک یہ آزاد ہے۔ کنیز گھر کے اندر واپس گئی تو صاحب خانہ بشر نے تاخیر کا سبب پوچھا تو اس نے واقعہ بیان کیا بشر کے دل پر واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ دوڑ کر امام: کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت اس کے پائوں میں جوتے نہیں تھے اس نے امامؒ سے اپنے حرام عمل یعنی گانے اور رقص کرنے کی معافی مانگی تو امامؒ نے فرمایا تو خدا سے معافی طلب کر، خدا تجھے معاف کر دے گا۔ اس نے خدا سے معافی طلب کی اور اللہ نے اس کو معاف کر دیا۔ اس واقعے کے بعد وہ گلیوں اور بازاروں میں ننگے پائوں چلتا رہتا تھا۔ اس نے کبھی بھی پائوں میں جوتے نہ پہنے۔ بشر سے اس کا سبب پوچھا جاتا تو وہ جواب میں کہتا ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بساطت اور فرش تعمیر کیا ہے اور بندے کی مجال نہیں ہے کہ مالک کے فرش پر جوتا پہن کر چلے اور وہ کہتا کہ کل میں نے خدا کے حضور امام موسیٰ کاظمؒ کے دربار میں معافی کی درخواست کی، تو اس وقت میرے پائوں میں جوتے نہیں تھے، اسی وجہ سے میں نے بعد میں جوتے پہننا پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ جب مجھ پر کرم ہوا تو میں ننگے پائوں تھا۔ اسی وجہ سے اس کا لقب حافی ( ننگے پائوں) پڑ گیا۔ اگست کا مہینہ ہے، ہر طرف ترانے گونج رہے ہیں تو سوچا جب لکھنے کی ’’ آزادی ‘‘ ہے تو کیوں نہ آزادی پر کچھ لکھا جائے۔ آزادی ایک ایسا لفظ اور ایسی اصطلاح ہے کہ جسے سمجھنے اور برتنے میں ہم اکثر غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ آزادی محض ایک نعرہ ہے تو شاید آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے۔ لیکن میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ آزادی نامی چیز کا اس دنیا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ انسان غلام پیدا ہوتا ہے اور غلام ہی مر جاتا ہے۔اب اگر کوئی یہ کہے ’’ تمہیں اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے، تمہیں کوئی غلام نہیں بنا سکتا ‘‘ تو یہ ایک سیاسی کتابی اور غیر علمی بات ہو گی۔ آزادی کے حوالے سے خدیجہ مستور نے اپنے خیالات کو یوں لفظوں کا روپ دیا ہے’’ مجھے امن سے محبت ہے، مجھے جنگ سے نفرت ہے، مگر مجھے اس جنگ سے بھی امن کی طرح محبت ہے جو انسان اپنی آزادی، اپنی عزت اور ملک کی بقا کے لیے لڑتا ہے ‘‘۔
آزادی کے حوالے سے ایک عمومی رائے یہ ہے کہ ’’ آزادی کا مطلب ہے کسی قسم کی پابندی یا غلامی سے نجات‘‘۔
یہ ایک ایسی حالت ہے جہاں ایک فرد یا گروہ کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے، سوچنے اور فیصلے کرنے کی مکمل آزادی ہو۔ آزادی مختلف پہلوئوں پر محیط ہے، جن میں سیاسی آزادی، معاشی آزادی اور ذاتی آزادی شامل ہیں۔
ذوق انسان کی مجبوری کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
اقبالؒ نے آزاد لوگوں کی مشکل کو کس خوب صورت انداز سے نظم کیا ہے
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
محسن بھوپالی یاد آئے:
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
اور محسن نقوی نے کہا تھا:
ہم کہ دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پائوں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
آزادی پر غور کرنے سے پہلے آپ حرکت اور سکون پر غور فرما لیجیے ۔
سائنس کہتی ہے ’’ حرکت اور سکون دونوں ہی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ایک گاڑی جو پہلے رکی ہوئی تھی، حرکت کرنا شروع کر سکتی ہے اور ایک چلتی ہوئی گاڑی بریک لگا کر رک سکتی ہے۔ لہٰذا، حرکت اور سکون دونوں ہی تعدیلی حالتیں ہیں، ہم بظاہر ساکن ہو کر بھی ساکن نہیں ہیں۔
کیوں کہ کتاب کے خبر دی ہے’’ اور اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے، سورج اور چاند کو پیدا کیا سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ‘‘۔
قدیم دور میں ایک تصور پیش کیا گیا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ مگر بعد میں کوپر نیکس نے سورج کو مرکز بتایا اور کہا کہ زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہوا تو وہ اپنے’’ باطل‘‘ سے تائب ہوا ، ایک میٹا فوریکل ( تشبیہاتی) جملہ ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں ایک خاص راستے پر چل رہا ہے، جیسے کہ کوئی چیز اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہو۔ یہ ایک عام انسانی تجربے کی عکاسی ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں مصروف ہے۔ہر شخص اپنی زندگی کے اہداف، خواہشات اور مسائل میں مصروف ہے۔ کوئی کسی دوسرے کی زندگی کے بارے میں مکمل طور پر نہیں جانتا۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں کے دائرے میں قید ہیں۔ ہمیں دوسروں کے بارے میں صرف اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وہ ہمیں بتاتے ہیں۔ زندگی کی رفتار تیز ہی اور ہم سب ایک نا معلوم مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ نامعلوم منزل فنا کا بلیک ہول ہی ہے کہ سب کو ایک دن اس میں اتر کر مٹ جانا ہے ۔
اب ہم آزادی کی طرف پلٹتے ہیں
سیانے کہتے ہیں ’’ آزادی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کرنے اور خوش حال زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے ‘‘۔ بقول شخصے ’’ ہم ہوا، بادل، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت کو محسوس کر سکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔ آزادی کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ ایک احساس کا نام ہے۔ گھٹن کے خاتمے اور کھلی فضا میں سانس لینا آزادی ہے۔ بلا خوف و خطر کہنا، سننا ، اختلاف کرنا ، اختلاف کا احترام کرنا اور اختلاف کر کے بھی زندہ رہنا اور رہنے دینا ہی آزادی ہے‘‘۔ اب آپ بتائیے کیا آپ کو ایسی کوئی آزادی میسر ہے۔ آپ کے جواب کا تو مجھے علم نہیں میرا میرا جواب ہے نہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو ان سے پوچھ لیجیے جنہوں نے آزادی کا نعرہ لگایا اور پھر ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا گیا۔
مولا علیؓ نے فرمایا تھا ’’ لفظ تمہارے غلام ہیں جب تک تم انہیں استعمال نہیں کرتے۔ پھر جب بولتے ہو تو پھر تم ان کے غلام ہو جاتے ہو‘‘۔
ایک دور تھا اور بڑا تاریک دور تھا جب انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ مائوں کے یوسف سر بازار بکتے تھے۔ ان کے آقا ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم تو نہ کیا ہاں غلاموں کا مرتبہ اتنا بلند کر دیا کہ حضرت بلال حبشیؓ کی عزت کسی قریشی کی طرح کی جانے لگی۔ پہلی بار غلاموں اور عورتوں کو انسان سمجھا جانے لگا۔ ان کے بھی حقوق متعین ہوئے۔ اسلام نے کفارے کی ادائیگی کے لیے غلام آزاد کرنے کی شرط لاگو کر دی۔
آج شاید ماضی طرح انسانوں کو خریدا بیچا نہیں جاتا، نہ غلام بنایا جاتا ہے، لیکن غلامی کا خاتمہ تو اب بھی نہیں ہو سکا ۔ مزدور کی مجبوری خرید کر اسے غلامی کا احساس دلایا جاتا ہے۔ مقروض ملکوں کو غلام بنانے کا رواج آج بھی جاری ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پوری پوری قوموں کو اپنا غلام بنا لیا کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو اس کا بڑا اچھا تجربہ ہے ۔ ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں، غلام قوم کے غلام حکمرانوں نے پچھلے دو سال ایک دانہ گندم نہیں خریدی۔ ایک سال اور بھی نہیں خریدیں گے۔ آقا نے حکم جو دے رکھا ہے۔
آزادی اتنی ہی اچھی چیز ہوتی تو غلامان رسول یہ نعرہ کبھی نہ لگاتے ’’ غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے‘‘۔
میرا خیال ہے یہ مان لینے میں ہی عافیت ہے کہ صرف ذات احدیت آزاد ہے اور باقی سب غلام اور مان لیجیے کہ غلامی کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہے ( جیسے ساکن ہو کر ہم حرکت میں ہوتے ہیں ) تو پھر کسی آزاد کے غلام بنو۔ کسی انسان ، نفس، پیسے، خواہشات وغیرہ کی غلامی سے بہتر ہے اس کی کسی آزاد کی غلامی کی جائے۔ وہی جو واحد ہی نہیں احد ہے۔ واجب الوجود ہے، مانگو اس سے جو کسی کا محتاج نہ ہو، بے نیاز ہو، پکارو اسے جو ہر آن، ہر لحظہ، ہر لمحہ سننے اور دینے پر قادر ہو۔
اقبالؒ نے بجا کہا ہے
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پِیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اللہ بس باقی ہوس۔





