ColumnImtiaz Aasi

پنجاب میں تعلیمی اداروں کی نج کاری شروع

پنجاب میں تعلیمی اداروں کی نج کاری شروع
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پنجاب میں تعلیمی اداروں کی نجی کاری کے سلسلے کے آغاز ہو گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں طالبات کے اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دے دیا گیا ہے۔ اس طرح پنجاب میں کئی ہزار طالبات کے اسکول نجی شعبے میں چلے گئے ہیں۔ طالبات کے اسکولوں کو نجی شعبے میں دینے سے والدین پر کسی قسم کا مالی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ بچے سرکاری اسکولوں کی طرح مفت تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ دراصل سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے، والدین کی کوشش ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم دلائیں، گویا اس لحاظ سے پرائمری اسکول حکومت کے لئے مالی بوجھ بن گئے تھے۔ راولپنڈی ضلع میں طالبات کے کئی پرائمری اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیاہ ے۔ راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان کے طالبات کے 27اسکول تعلیم فائونڈیشن کو دے دیئے گئے ہیں، اسی طرح تحصیل کوٹلی ستیاں کے 16اور راولپنڈی کے 6اسکولوں کا انتظام مذکورہ فائونڈیشن کرے گی۔ پنجاب حکومت نے جن اسکولوں کو نجی شعبے میں دے دیا ہے ان میں کام کرنے والی اساتذہ کو دیگر سرکاری اسکولوں میں شفٹ کرے گی، البتہ یہ ضرور ہے ان اسکولوں میں کام کرنے والی ٹیچرز کو اب اپنے علاقے سے دور دراز تعلیمی اداروں میں جانا پڑے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے جن اسکولوں کو تعلیم فائونڈیشن کے سپرد کیا گیا ہے اس کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال قادر ایک راست باز سابق بیورو کریٹ ہیں، جنہوں میں بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں تعلیم فائونڈیشن کے تعلیمی ادارے کھول کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔1989ء میں انہوں نے بطور ڈپٹی کمشنر تعلیم فائونڈیشن کا پہلا اسکول نواب اکبر خان بگٹی کے تعاون سے کوہلو میں کھولا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے تعلیم فائونڈیشن کے اسکولوں کا دائرہ پورے بلوچستان تک پھیل گیا۔ اس وقت تعلیم فائونڈیشن کے اسکول کوہلو ، لورالائی، ژوب، مستونگ، قلعہ سیف اللہ ، مسلم باغ، سوئی اور پشین جیسے دور افتادہ علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اس وقت تک ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ایک ہزار بچے ڈاکٹر اور انجینئر ہیں، جو اندرون اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کئی سو بچے پاکستان کی سول سروس اور مسلح افواج میں کمیشن حاصل کر چکے ہیں۔ جنیوا سے اس کالم نگار سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے بتایا تعلیم فائونڈیشن کے طلبہ سے نرسری سے میٹرک تک صرف ایک ہزار روپے فیس لی جاتی ہے لیکن پنجاب گورنمنٹ نے جن پرائمری اسکولوں کو تعلیم فائونڈیشن کے حوالے کیا ہے ان تعلیم حاصل کرنے والی طالبات سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی۔ ان اسکولوں میں کام کرنے والی ٹیچرز کو تعلیم فائونڈیشن مشاہرہ دیا کرے گی۔ انہوں نے بتایا پنجاب سے تعلق رکھنے والی دو سو سے زائد خواتین ٹیچرز ان تعلیمی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جن کی رہائشی انتظامات بھی تعلیمی فائونڈیشن نے کئے ہیں۔ آج سے ستاون برس قبل پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا، جس سے مرد اور خواتین اساتذہ کو ملازمت کے تحفظ کے ساتھ ان کی تنخواہوں کے گریڈ بہت زیادہ ہوگئے۔ ہائی اسکولوں کے بہت سے ہیڈ ماسٹر جو قومی تحویل میں لئے جانے سے قبل تین چار سو روپے ماہوار مشاہرہ لیا کرتے تھے ان کی بہت بڑی تعداد گریڈ بیس میں ریٹائر ہوئی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے جن تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا ان کا تعلیمی معیار قومی تحویل میں لینے کے بعد گر گیا۔ ٹیچرز نے اپنی اپنی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں، وہ اپنے اپنے مسائل کے حل کے لئے اساتذہ تنظیموں کا سہارا لیتے ہیں۔ قومی تحویل میں لئے جانے سے قبل انہیں ملازمت سے نکل جانے کا خوف رہتا تھا اور وہ طلبہ کو محنت اور لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو پنجاب حکومت کے لئے سرکاری تعلیمی ادارے مالی بوجھ بن چکے ہیں، اسی لئے حکومت ان تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار نجی شعبے میں دے رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں طالبات کے پرائمری اسکولوں کو مختلف این جی اوز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جن پرائمری اسکولوں کو نجی شعبے میں دیا گیا ہے ان میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے عوض پندرہ سو روپے فی کس کے حساب سے پنجاب حکومت این جی اوز کو ادا کرے گی، جس میں انہیں اساتذہ کی تنخواہیں اور یوٹیلیٹی بلز کے علاوہ اسکولوں کی عمارات کی تزئین و آرائش کرنا ہوگی۔ موجودہ دور میں عوام ویسے بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں کی بجائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے کے خواہش مند ہیں، چنانچہ یہی وجہ ہے سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ ان تعلیمی اداروں پر اٹھنے والے اخراجات کروڑوں روپے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کے بعد ایسی این جی اوز جو ان تعلیمی اداروں کا کنٹرول سنبھالیں گی ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ دیکھتے ہیں این جی اوز سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار کس حد تک بہتر کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ان این جی اوز کے لئے سب سے بڑا چیلنج پرائمری سکولوں میں زیادہ سے زیادہ طالبات کے داخلوں کو ممکن بنانا ہوگا۔ اگر این جی اوز بچوں کو بہتر تعلیم دینے میں کامیاب ہو تی ہیں تو عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد دیہی علاقوں کے ان سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے میں فخر محسوس کرے گی۔ حقیقت تو یہ ہے ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار پست ہے، اسی لئے امیر لوگ اپنے بچوں کو ملک سے باہر تعلیم دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے صوبے میں بعض نجی تعلیمی ادارے تعلیمی معیار میں سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں سبقت لے گئے ہیں۔ پرائمری اسکولوں کو نجی شعبے میں دینے سے مقامی طور پر طالبات کو پڑھانے والی اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جائے گا، جس سے ان کی مشکلات اور بڑھنے کا قومی امکان ہے۔ پنجاب حکومت کو نجی شعبے میں جانے والے تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ کو ان کے گھروں سے زیادہ سے زیادہ قریبی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button