کرکٹ کے ہیرے مٹی میں کیوں مل گئے؟

تحریر : راؤ بلال
لاہور ، پاکستان
پاکستان کرکٹ ٹیم کی تباہی کی داستان کا آغاز ایشیا کپ 2023 سے ہوا، جب ہم میزبان ہوتے ہوئے بھی اپنی سرزمین کے وقار کا سودا کر بیٹھے اور غیر جانبدار مقام پر کھیلنے کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس دن سے جیسے قسمت نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ایشیاء کپ میں نیپال اور بنگلہ دیش جیسی نسبتاً کمزور ٹیموں پر معمولی فتوحات کے بعد بھارت کے ہاتھوں عبرتناک شکست نے بنیاد ہلا دی، اور پھر ایک کے بعد ایک کم رینک ٹیموں سے ہار نے اس عمارت کو ملبے میں بدل دیا۔ ٹیم مینجمنٹ اور بورڈ کی "دور اندیشی” کا عالم یہ ہے کہ فیصلے ایسے صادر ہوتے ہیں جیسے کرکٹ نہیں بلکہ کسی بے ڈھنگے ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا جا رہا ہو، جہاں کردار کمزور، مکالمے بے جان اور انجام پہلے سے معلوم صرف تماشائیوں کی مایوسی باقی۔
بطور کرکٹ کے فین پاکستان کی حالیہ کارکردگی نے مجھے کرکٹ دیکھنے سے اتنا بدظن کر دیا ہے کہ اب خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا کوئی میچ ہے۔ یہ صورتحال اچانک نہیں بنی میرے جیسا کرکٹ کا دیوانہ جسکی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کرکٹ خاص طور پر پاکستان کا کوئی میچ مس نہ ہو آج کل صرف ای ایس پی این نامی کرکٹ ایپ سے سکورکارڈ دیکھ کر اپنا گزارا کر لیتا ہوں۔
سال تھا 2023میں ایک نجی چینل میں اپنی ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ میرے کمرے میں ایل سی ڈی کی سہولت موجود نہ تھی ایشیاء کپ کا اعلان ہو چکا تھا میں نے اور کچھ ساتھیوں نے ملکر اپنے باس سے کمرے میں ایل سی ڈی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا ایچ آر کو ای میل لکھیں یہ کام کون کرے میں نے اسکی ذمہ داری قبول کی اور ایک ای میل لکھی اور سی سی میں اپنے باس کو رکھ دیا ایچ آر نے بغیر پوچھے کی ایل سی ڈی کیوں چائیے اسکی منظوری دے دی۔ ہم بڑھے خوش تھے کہ اب ایشیاء کپ دیکھیں گے بڑا مزا آئے گا۔ ایک آفس کے دوست نے کہا زیادہ خوش نہ ہو پاکستان ابھی سال کے ابھی مارچ کے مہینے میں افغانستان کی ٹیم سے تین ٹی ٹوینٹی میچز کی سیریز 2-1 سے ہار کر آیا ہے۔ اس پر ایک خاتون ساتھی جو کرکٹ کو لے کر کافی emotional تھی اسکی بات یہ کہہ کر رد کر دی کہ ہم نے اپنی بی ٹیم بطور تجربہ بھیجی تھی۔اس پر جواب آیا دیکھیں گے مجھے پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالات ملک جیسے لگ رہے ہیں۔اب اسے دور اندیشی کہا جائے یا کچھ اور۔اس پر جواب آیا کہ ہم نے مئی کے مہینے میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو 4-1 سے ایک روزہ سیریز میں شکست دی ہے،اس پر میرے دوست نے کہا وہ نیوزی لیںڈ نے تجربے کے طور پر اپنی بی ٹیم بھیجی تھی۔ اس پر بحث میں شدت آتی نظر آئی اور میں نے لقمہ دیا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی بھی بات کریں ایک سال سے ہم صرف سری لنکا کے خلاف ہی ٹیسٹ میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ کہہ کر مجھے خیال آیا کہ واقعی صورتحال تو کافی نازک ہے لیکن اس آس اور امید سے کہ اللہ کرے سی چنگیاں ایشیاء کپ سے پہلے ہوئی افغانستان سیریز جس میں پاکستان 3-0سے کامیاب ہوا تھا تھوڑا سا حوصلہ ہوا یہ سیریز ہم نے ایک لیپ ٹاپ پر دیکھی تھی لیکن ذہن میں ایک خیال تھا جیتے تو بحرحال افغانستان سے ہی ہیں لیکن چلیں امید پر دنیا قائم ہے۔
30اگست کو ایک رنگارنگ تقریب ہوئی اور پاکستان اور نیپال کے درمیان میچ ہوا۔ اس میچ میں کنگ بابرنے سنچری سکور کی اور پاکستان یہ میچ با آسانی جیت گیا۔ اسکے بعد بابر نے آج تک 75اننگز میں دوبارہ سنچری سکور نہیں کی بلکہ اب تو حالات انہیں ڈراپ کرنے پر آگئے ہیں جسکی میں شدیس مخالفت کرتا ہوں کھلاڑیوں پر اچھا برا وقت آتا رہتا ہے۔اسکے بعد پاکستان کا مقابلہ انڈیا کے ساتھ تھا جو بارش کی نظر ہوا اور ہم نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو شکست دے کر اگلہ مرحلہ کے اہل پائے۔اسکے بعد ہوا موت کا ننگا ناچ وہ میچ جس نے پاکستان ٹیم کو اخلافی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔میدان تھا کولمبو کا مقالبہ تھا روایتی حریف سے آغاز ہوا سلپ میں کیچ چھوڑنے سے اور لنکا کا میدان پاکستان کی لنکا لے ڈوبا۔ پچاس اوورز کے میچ میں پاکستان صرف دو کھلاڑی آؤٹ کر سکا اور یہ میچ 228رنز سے ہارا۔ اسکے بعد سری لنکا سے شکست کھا کر ہم یاتھ ہلاتے گھروں کو واپس آگئے۔
ورلڈ کپ 2023 میں بھی پاکستان کے شاہین اپنے دس میچز میں سے 4 میچز ہی جیت سکے اور تاریخ میں پہلی بار کسی بھی ورلڈ کپ مہم میں 5 سے زائد میچز ہار کر اپنا ریکارڈ توڑا۔اس ورلڈ کپ مہم میں پاکستان پہلی بار کسی عالمی مقابلہ میں افغانستان سے میچ ہاری۔ اس تمام صورتحال کے بورڈ کو کرکٹ کے مستقبل کی کای فکر لاحق ہوئی اور بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جیسے یہ تمام غلطی بابر کی ہو ٹیم میں لابنگ،بورڈ کی کمزوریاں بالرز کا وکٹیں نا لینا، ساتھی بلے بالزوں کی غیر مستقل کارکردگی سب کا ملبہ بابر پر ڈال کر کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔ بابر کی کپتانی کا رہکارڈ نسبتا بہتر تھا یم نے انڈیا کو میچ ہرایا۔ 13 سال بعد ٹی ٹوینٹی کا فائنل کھیلا لیکن غلطی صرف بابر کی نکالی گئی۔اسی سال کے آخر میں پاکستان آسٹریلیا سے ٹیسٹ میچ سیریز 3-0سے ہارا اور ایک بار پھر تنقید صرف بابر پر کی کئی حالانکہ دو بار موقع آیا کہ میچ پر پاکستان کی گرفت مضبوط تھی لیکن ناقص بولنگ اور حکمت عملی سے میچ ہاتھ سے نکل گیا۔
اسکے بعد دور نیوزی لیںڈ میں پاکستان کے فیورٹ فارمٹ ٹی ٹیونٹی میں 4-1 سے شکست ہوئی اورنئے کپتان شاہین آفریدی پر تنقید ہوئی جن پر بہت سارے سپورٹس رپورٹرز نے الزام عائد کیے کہ یہ لابنگ میں شامل تھے اور انکی وجہ سے بابر کو کپتنی سے ہٹایا گیا ہے۔ اور اسکے بعد پی ایس ایل میں شاہین کی ٹیم یک بعد دیگر میچ ہاری اور بورڈ نے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ 2024 سے پہلے ایک بار پھر کپتانی بابر کے حوالے کی جو کہ غلطی نہیں غلطا تھا۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان پہلے امریکہ جیسی ٹیم سے میچ ہارا جہاں حارث رؤف عرف سپیڈ گن آخری اوور میں 16 رنز کا دفاع نا کر پائے اور میث ڈرا ہوا رہی سہی کسرمحمد عامر نے پوری کی جہاں 7 ایکسٹراز کے ساتھ 18رنز دے دیے اور میچ امریکہ جیت گیا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تھا جسکے بعد کرکٹ سے دل اٹھ گیا پاکستان 120 بالز پر 120رنز نا بنا سکا۔ اسکا ملبہ میں ساری ٹیم اور اس ہار کا خصوصی کریڈٹ عماد وسیم کو جاتا جسے تیز کھیلنے کے لیے نمبر 5 پر بلے بازی کے لیے بھیجا گیا لیکن ایک بال بھی بلے کے درمیان میں نہ لگی۔
ایک بار پھر بابر نے کپتانی سے استعفیٰ دیا اور ابکی بار یہ فیصلہ درست تھا۔ پھر اگست کا مہینہ آیا پاکستان بنگلہ دیش سے وائٹ واش ہوا یہ خبر جب نیوزروم میں سپورٹس رپورٹر نے ٹکرز والے گروپ میں ڈالی تو اسے ڈلیٹ فار می کردیا۔ اسکے بعد پاکستان کرکٹ کو سنوارنے کی ذمہ داری عاقب جاوید کو سونپ دی گئی۔اکتوبر میں دورہ انگلینڈ میں پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کی ٹیم 500 سے زیادہ رنز بنا کر ٹیسٹ میچ ایک اننگز سے ہارنے والی پہلی ٹیم بن گئی پاکستان نے ایک بار پھر ریکارڈ توڑا یہ ہیڈ لائن تھی۔ اسکے بعد عاقب جاوید نے تمام سیئنرز کو آرام کروایا اور سپن فرینڈلی پچز تیار کروائی اور پاکستان نے انگلینڈ کو سیریز میں 2-1 سے شکست دے دی۔
اسکے بعد والے مہینے ایک بار پھر امید کی کرن لے کر آئے پاکستان نے نئے کپتان محمد رضوان کی قیادت میں پہلے آسٹریلیا کو دن ڈے سیریز میں شکست دی اسکے بعد جنوبی افریقہ کو۔ البتہ ہم ٹی ٹوینی سیریز دونوں ملکوں سے ہارے لیکن امید کی ایک کرن میں نے یہ سیریز کی جھلکیان فیس بک پر دیکھیں۔
اسکے بعد ٹرائے سیریز ہوئی پاکستان فائنل ہار گیا، پھر چیمپین ٹرافی میں پہلی بار پاکستان کوئی میچ جیتنے میں کامیاب نہ ہوا اور ابکی بار بھی بورڈ نے میچز نیوٹرل وینیو پر کروانے کا فیصلہ لیا اور پاکستان نے 5 میں 3 فلائٹس لیں اور میچ ایک نہیں جیتا۔اسکے بعد چیئرمین کرکٹ بورڈ کی جانب سے سرجری کا کہا گیا اور ٹیم میں ردوبدل کر کے بابر اور رضوان کو ڈارپ کر کے ون ڈے تک محدود کردیا گیا۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹیوتٹی سیریز اور سن ڈے سیریز 4-1 اور 3-0 سے ہاری اس شکست کا ملبہ پھر بابر پر حالنکہ تین میچز میں دو نصف سنچریاں پاکستان کی جانب سے صرف بابر کی ہی تھی۔ اس سیریز میں بھی پاکستان کے مڈل آرڈر پر سوالات اٹھے اور تنقید کرنے والوں کے جواب میں ایک سابق کرکٹر نے کہا کہ بابر کے علاوہ باقی دس اور بھیجے ہیں کیوں بابر کو دس بہنوں کا اکلوتا بھائی سمجھا جاتا ہے؟سوال تو میرا بھی یہی ہے۔
پاکستان نے مئی کے مہینے میں بنگلہ دیش کو نئے کپتان سلمان علی آغا کی قیادت میں شکست دی اسکے بعد جولائی میں بنگلہ دیش نے گھر بلا کر حساب برابر کر لیا۔اسکے بعد پاکستان کا مقابلہ تھا ویسٹ انڈیز کے ساتھ جو کہ 2023 ورلڈ کپ اور 2025 چیمپنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی بھی نہ کر سکی تھی۔ پاکستان نے ٹی ٹوینٹی سیریز تو 2-1 سے اپنے نام کی لیکن ون ڈے میں عبرتناک شکست حاصل ہوئی۔ پہلا میچ پاکستان جیتا میں نے براہراست دیکھا۔دوسرا میچ صبح 8 بجہ دفتر پہنچنے کے پر یشر کے باوجود رات 2 بجے تک دیکھا۔ تیسرے میچ کو دیکھنے کا دل ہی نہیں کیا۔ ایکس پر دیکھا تو پاکستان کے 26 کے سکور پر 4 آؤٹ تھے بڑا دکھ ہوا۔ وی لاگ ریکارڈ کر کے سونے والا تھا کہ یوٹیوب پر میچ کی ہائیلاٹس لگ چکی تھی حیرانگی نہیں ہوئی ای ایس پی این دیکھا تو شائین صرف 92 سکور پر ڈھیری ڈھا گئے تھے۔ دکھ ہوا افسوس ہوا۔ ٹویٹر پر کیا ہو ایک صارف کا تجزیہ یاد آیا کہ ہاکی کی طرح کرکٹ بھی ختم ہو جائے گی اور ہوتی نظر آرہی ہے۔ بورڈ اور کھلاڑیوں سے گزارش ہے ہم سب پر رحم کریں کوئی اللہ توبہ کریں صدقہ دیں اور اپنی تمام تر توجہ کھیل پر دیں۔اور میرا وہ بھائی جس نے ایشیاء کپ سے پہلے پاکستان کرکٹ کے ان حالات کی پیشنگوئی کی تھی اب پوری قوم کے ساتھ دعا کرے کے حالات بدل جائیں۔ ہمارے پاس بہت کم چیزیں تھیں جن پر خوشی منائی جاتی تھی ان میں سے ایک کرکٹ ہے۔ کرکٹ بورڈ سے گزارش ہے کے سازشی عنصر کو ٹیم اور بورڈ سے دور رکھا جائے۔
پاکستان کرکٹ کے زوال کی یہ کہانی محض چند میچز کی ہار جیت کا قصہ نہیں، بلکہ یہ برسوں سے پھیلی ہوئی بدانتظامی، سازشوں، غیر سنجیدگی اور وقتی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ جس ٹیم کو کبھی دنیا میں فخر سے پیش کیا جاتا تھا، آج وہی ٹیم اپنے مداحوں کے دل توڑ کر میدان سے باہر آ رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بورڈ اور کھلاڑی دونوں جاگ جائیں، ذاتی مفادات کو دفن کر کے کھیل کو مقدم رکھیں، اور اس قوم کو وہ کرکٹ واپس دیں جو کبھی ہماری پہچان تھی۔ اگر ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو ہاکی کی طرح کرکٹ بھی محض تاریخ کی کتابوں میں ایک یاد بن کر رہ جائے گی۔ قوم کی دعائیں، جذبہ اور محبت اب آخری بار پکار رہی ہیں سنبھل جاؤ، ورنہ آنے والی نسلیں ہم سب کو معاف نہیں کریں گی۔







