جناحؒ کا پاکستان اور مذہبی جماعتیں

جناحؒ کا پاکستان اور مذہبی جماعتیں
تحریر، ڈاکٹر ضرار یوسف
۔پاکستان کا وجود شائد دنیا کے نقشے پہ موجود نہ ہوتا اگر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مطالبات کانگریس تسلیم کر لیتی۔ مگر انڈین نیشنل کانگریس نے یہ مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور جس کے نتیجے میں دو قومی نظریہ مضبوط ہوا اور پاکستان کے مطالبہ کی بنیاد بنا۔
برصغیر ہند کے مسلمانوں کے سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ سے متعلق تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے (1929ئ) نہرو رپورٹ کے جواب میں 14نکات پہ مشتمل مطالبات پیش کئے تھے۔ جن میں سے کچھ نکات تسلیم کر لئے گئے، مگر مسلمانوں کے تحفظ کی بابت اہم نکات کو کانگریس نے رد یا نظرانداز کیا۔
وہ نکات یہ ہیں:
1۔ ہندوستان کا وفاقی ڈھانچہ اور صوبوں کو خودمختاری: قائد اعظمؒ چاہتے تھے کہ وفاق کے پاس کم اختیارات ہوں اور صوبے زیادہ بااختیار ہوں تاکہ مسلم اکثریتی صوبے اپنی ثقافت و سیاست کی حفاظت کر سکیں۔ مگر کانگریس ایک مضبوط مرکزی حکومت پر اصرار کر رہی تھی۔
2۔ تمام صوبوں میں مسلم نمائندگی کا تحفظ: قائد اعظمؒ نے مطالبہ کیا تھا کہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم نہ ہو۔ مگر کانگریس نے مشترکہ انتخاب اور آبادی کے تناسب کے اصول پر زور دیا، جس سے مسلم سیاسی اثر کم ہو جاتا۔
3۔ علیحدہ انتخابی نظام: مسلمانوں کے لیے علیحدہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا۔ جبکہ یہ مسلمانوں کی سیاسی شناخت کا ایک اہم ستون تھا۔
4۔ مسلم اکثریتی صوبوں کی اکثریت کو برقرار رکھنا: قائد اعظمؒ نے کہا کہ صوبائی سرحدوں میں ایسی تبدیلی نہ کی جائے جس سے مسلم اکثریت کمزور ہو۔ مگر کانگریس نے اس پر واضح ضمانت نہیں دی۔
5۔ مرکزی کابینہ میں ایک تہائی وزراء مسلمانوں کے ہوں: اس مطالبے کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔
6۔ تمام مذاہب کی ثقافتی، مذہبی اور لسانی آزادی کی ضمانت دی جائے مگر کانگریس کے رویے اور پالیسیوں سے مسلمانوں کو خدشہ تھا کہ ہندو کلچر غالب آ جائے گا اور اسلامی تہذیب متاثر ہوگی۔
ان مطالبات کی مسلسل مخالفت اور کانگریس کے ’’ ایک قوم‘‘ والے بیانیے نے قائداعظمؒ کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جن کی تاریخ، تہذیب، مذہب اور مفادات جدا ہیں۔ یوں دو قومی نظریہ ایک سیاسی حقیقت کے طور پر ابھرا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی تھے اور اس پر انہوں نے عملی کردار ادا کیا ۔ ان کے نظریات، تقاریر، اور سیاسی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ جناحؒ ایک عرصہ تک انڈین نیشنل کانگریس (1906)اور آل انڈیا مسلم لیگ (1920)دونوں کے ممبر رہے اور دونوں پلیٹ فارمز پر ہندو مسلم ہم آہنگی کی وکالت کرتے رہے۔انہوں نے (1913)میں مسلم لیگ کو مشورہ دیا کہ وہ کانگریس کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم اختیار کرے۔ اور کہا:
’’ بھارت کی حقیقی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہندو اور مسلمان ایک قوم بن کر ساتھ کام کریں‘‘۔
لکھنو پیکٹ 1916میں جناح اس تاریخی معاہدے کے مرکزی معمار تھے۔ جس میں ہندو اور مسلمان لیڈروں نے سیاسی مطالبات پر اتفاق کیا۔ اس کردار پر انہیں Ambassador of Hindu-Muslim Unityکا خطاب دیا گیا۔
جناح اکثر اپنے خطابات میں دونوں قوموں کو اتحاد کی تلقین کرتے، مثال کے طور پر 1915ء بمبئی میں کہا: ’’ اگر ہم خود حکومتی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہندو اور مسلمان کو متحد ہو کر ایک مشترکہ مقصد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا‘‘۔
قائد اعظم محمد علی جناح: ایک جمہوریت پسند اور سیکولر قوم پرست راہنما تھے۔ وہ سیاست میں مذہب کی مداخلت کے خلاف تھے۔ کانگریس نے 1920ء میں خلافت تحریک کی حمایت کی جس کا مقصد خلافت عثمانیہ کو بچانا تھا۔ قائد اعظمؒ اور کانگریس کے درمیان اختلافات کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کانگرس کا سیاست میں مذہبی جھکائو اور جمہوریت کے برعکس بادشاہت خلافت کی حمایت کرنا تھی ۔
جبکہ ترکی کی عوام خلافتِ عثمانیہ کے خلاف مصطفیٰ کمال پاشا’’ اتاترک‘‘ کی قیادت میں جمہوری سیکولر ترکی کے لئے جدوجہد کر رہی تھی ۔ یہ جدوجہد 1919ء سے 1924ء کے درمیانی عرصے میں مختلف مراحل سے گزری۔ ترکی کی قومی جدوجہد کا آغاز 19مئی 1919ء کو مصطفیٰ کمال پاشا نے قومی مزاحمت کی قیادت سنبھالی۔ اور قومی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اس تحریک کے نتیجے میں یکم نومبر 1922ء کو سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ۔
مصطفیٰ کمال پاشا ( اتاترک) نے جدید، سیکولر جمہوریہ ترکی کی بنیاد 29اکتوبر 1923ء کو رکھی ۔ ترک پارلیمان ( گرینڈ نیشنل اسمبلی) نے با ضابطہ طور پر ’’ جمہوریہ ترکی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا اور اتاترک اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ یہی دن ترکی میں آج بھی یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر میں بیشتر مذہبی جماعتیں خود کو صریح طور پر ’’ سیکولر‘‘ نہیں کہتی تھیں لیکن ان کا سیاسی رویہ اور عملی ایجنڈا سیکولر تھا ۔ وہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے ۔ یا کم از کم سیاست میں مذہبی قوانین کو براہِ راست نافذ نہ کرنے کے حق میں تھیں ۔
جمعیت علمائے ہند دیو بندی مکتب فکر سے وابستہ، مگر سیاست میں زیادہ تر کانگریس کی اتحادی سیکولر رجحان کی حامی متحدہ ہندوستان کی حمایت، مذہب کو ریاست سے الگ رکھنے اور سب شہریوں کے مساوی حقوق پر زور اور یک قومیت کی داعی جو قیامِ پاکستان کی مخالف، ہندوستان کو مشترکہ وطن قرار دیتی تھی ۔
مولانا حسین احمد مدنی ( جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ رہنما)، انہوں نے کہا:’’ وہ ایک سیکولر آزاد ہندوستان پر یقین رکھتے تھے، جہاں مذہبی شناخت نجی ہو، لیکن سیاسی شناخت متساوی شہریوں کی ہو‘‘۔
خلافت کمیٹی کے بعد اس کا معتدل دھڑا جو کانگریس میں ضم ہو گیا ۔ جو سیکولر نظریہ رکھتا ، مذہبی بنیاد پر علیحدگی کے بجائے جمہوری اور کثیرالقومی ہندوستان کی حمایت کرتا تھا۔
خدائی خدمتگار تحریک ( سرخ پوش) خان عبدالغفار خان کی قیادت، پشتون معاشرت میں اصلاح اور برطانوی استعمار کی مخالف۔ سیکولر نظریے کی حامل ، عدم تشدد اور عوامی فلاح پر زور۔ اور کانگریس سے الحاق، متحدہ ہندوستان کی حمایت کرتی تھی ۔
مجلس احرارِ اسلام دیوبندی مسلک سے تعلق، مگر سخت اینٹی۔احمدیہ اور اینٹی۔برٹش تحریکیں چلانے والی جماعت جو مذہبی طور پر قدامت پسند ہونے کے باوجود سیاسی طور پر سیکولر نظریے ، متحدہ ہندوستان کی حمایت اور مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے تصور کی مخالفت۔ برصغیر کی سیاست کو زیادہ تر سامراج مخالف اور قومی آزادی کی بنیاد پر دیکھتی تھی ۔
مولانا ابولکلام آزاد مسلمانوں کے لیے مشترکہ ہندوستان میں رہنے اور مذہبی مساوات کے نظریے پر قائم رہے، اور برصغیر ہندوستان کی تقسیم کے مخالف رہے۔ مولانا مزہر علی ازہر، سید عطا اللہ شاہ بخاری، پیر مہر علی شاہ، پیر صبغت اللہ راشدی پیر آف پگاڑو انہوں نے مسلم لیگ کی عملی حمایت نہیں کی، بلکہ میریلو رنگدہ جدوجہد میں فعال تھے، اور بقول تاریخ، انہوں نے جناحؒ کی نظریاتی پالیسیوں سے اختلاف کیا۔
جمعیت علمائے ہند تنظیم کی قیادت میں مدنی سمیت دیگر ہندو ازم کی حمایت سے وابستہ تھی، اور اس نے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت کے خلاف متحدہ ہندوستان کا نظریہ اپنایا۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی کے بانی، جو دو قومی نظریہ کے شدید مخالف تھے اور تقسیم کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ایک مقدس اسلامی امت کو تقسیم کرنا، نظریاتی طور پر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے، اور اس سے امّت عالمہ کی تقسیم ہوتی ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتویٰ جاری کیا کہ ’’ ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت جائز نہیں، کیونکہ موجودہ صورت میں جہاد کے شرائط مکمل نہیں ہوتے‘‘۔ فتاویٰ رضویہ، جلد 14، صفحہ 441،442اس کے علاوہ احمد رضا اور سیاست از ڈاکٹر محمد مسعود احمد، اس کتاب میں احمد رضا خان کے سیاسی موقف اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی مخالفت کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔
مفتی جعفر حسین قیام پاکستان سے پہلے وہ آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے سرگرم رہنما تھے۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان میں شیعہ حقوق کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ اس لیے وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ بعد ازاں وہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں شیعہ سیاسی پلیٹ فارم کے معمار بنے۔
سید علی نقی نقوی ( نوّرانی میاں ) لکھنو کے شیعہ عالم تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور ہندوستان میں متحدہ قومیت کے حامی رہے۔ اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ تقریبا سبھی مسلمان فرقوں کے علماء کرام اور اہم سیاسی مذہبی پارٹیوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔ جبکہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کی مخالفت کی۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کی معاشی ثقافتی آزادی کا خطہ حاصل کیا گیا تھ ۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے متعدد خطابات، انٹرویوز اور بیانات سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے بجائے ایک سیکولر، جمہوری اور قانون کی بالادستی پر مبنی ریاست بنانا چاہتے تھے، جہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
ذیل میں قائداعظم کے خیالات کے دلائل کے ساتھ مستند حوالہ جات دئیے جا رہے ہیں
11اگست 1947ء کو قومی اسمبلی میں تقریر، ترجمہ: آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے، آپ کو اپنی مسجدوں میں جانے کی آزادی ہے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کا کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو سکتا ہے، اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
برطانوی پریس کو دئیے گئے انٹرویوز میں انہوں نے کہا ’’ پاکستان کوئی مذہبی ریاست نہیں ہو گا جہاں مولوی یا پادری خدائی مشن کے ساتھ حکومت کریں گے‘‘۔
قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا۔ کہا ’’ اقلیتیں چاہے کسی بھی برادری سے تعلق رکھتی ہوں، ان کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کا مذہب، عقیدہ یا ایمان محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی‘‘۔
سائمن کمیشن کے موقع پر جناح کا موقف: ’’ جناح نے کہا کہ ’’ ہندوستان میں ہر شہری کو برابر کا حق ہونا چاہیے، اور مذہب ریاست سے الگ ہونا چاہیے‘‘ ۔
قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے منشور میں سیکولر رجحانات: مسلم لیگ کا 1940ء کی قرار دادِ لاہور ( پاکستان ریزولوشن) مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کا مطالبہ ضرور تھا، لیکن اس میں مذہبی ریاست کے قیام کا ذکر نہیں تھا۔ اس قرارداد میں صرف مسلمانوں کے سیاسی، ثقافتی، مذہبی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر حقوق کی حفاظت کی بات کی گئی تھی، نہ کہ شریعت کے نفاذ کی۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کا تصور پاکستان ایک ایسی ریاست کا تھا جہاں ریاست مذہب سے بالا تر ہو، اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو، قانون کی حکمرانی ہو اور تمام شہری برابری کی بنیاد پر شریک ہوں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تشکیل کردہ پہلی کابینہ کا تجزیہ کیا جائے تو مکمل ایک سیکولر ریاست کا نقشہ پیش کرتی ہے ۔
آج پاکستان مذہبی انتہاء پسندی ، عدم برداشت ، دہشتگردی کا شکار ہے ۔ کبھی سوچئے اگر پاکستان جناحؒ کا پاکستان ہوتا تو ہم کس قدر پرامن محبت بھائی چارے کی فضا میں پر سکون زندگی گزار رہے ہوتے۔
پاکستان زندہ باد
ڈاکٹرضرار یوسف





