پاکستان، ایران سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی

پاکستان، ایران سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی
تحریر : قادر خان یوسف زئی
افغانستان کے طویل المیعاد بحران اور مسلسل عدم استحکام نے اس خطے کے جغرافیے کو جس طرح انسانی المیوں کا مرکز بنایا، اس کا سب سے نمایاں پہلو لاکھوں افغان مہاجرین کی وہ داستان ہے جو چالیس برس سے زائد پر محیط ہے۔ یہ داستان محض ہجرت کی نہیں بلکہ صبر، قربانی اور میزبانی کے ایسے باب کی ہے جس میں ایران اور پاکستان دو بڑے میزبان ممالک کے طور پر عالمی منظرنامے پر ابھرے۔ پاکستان کی سرزمین نے 1979ء میں سوویت مداخلت کے بعد آنے والے لاکھوں افغانوں کو اپنی گود میں جگہ دی، اور ایران نے اسی دور سے لے کر آج تک انسانی ہمدردی کے تحت افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ ان چار دہائیوں میں عالمی سیاست نے کئی کروٹیں بدلیں، لیکن ان دو ممالک کی میزبانی کا تسلسل کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا، حالانکہ معاشی دبائو، سکیورٹی خدشات اور داخلی چیلنجز اس راہ میں مسلسل حائل رہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد ابتدا میں عارضی سمجھی گئی تھی، مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ عارضی قیام ایک نسل بلکہ کئی نسلوں پر محیط کہانی میں بدل گیا۔ کیمپوں سے شہروں تک، اور سرحدی علاقوں سے بڑے صنعتی مراکز تک، افغان مہاجرین نے پاکستانی معاشرے میں ایک متوازی زندگی تشکیل دی۔ پاکستان نے ابتدا میں مہاجر کیمپ قائم کیے، بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے خوراک، رہائش اور طبی سہولتیں فراہم کی گئیں، اور لاکھوں افغانوں کو بلا کسی ویزا یا پیچیدہ دستاویزات کے ملک میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ ایران نے بھی اسی طرح کی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان مہاجرین کو سرحدی صوبوں میں بسایا، کام کرنے کی اجازت دی، اور اپنے تعلیمی و صحت کے نظام میں ان کے لیے جگہ پیدا کی۔ ایران کی پالیسی میں ایک خاص پہلو یہ رہا کہ افغان مہاجرین کو عام طور پر رجسٹریشن کارڈز کے ذریعے بنیادی سہولتوں تک رسائی دی گئی، اور تعلیم کے میدان میں ایرانی اسکولوں نے بڑی تعداد میں افغان بچوں کو جگہ دی۔
انسانی ہمدردی کا یہ تسلسل محض حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ عوامی رویوں اور معاشرتی برداشت کا بھی مظہر رہا۔ پاکستان میں سرحدی صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے لاکھوں افغان خاندانوں کو اپنے ساتھ رہنے دیا، کاروبار اور روزگار میں حصہ دیا، حتیٰ کہ بہت سے افغان مہاجرین نے مقامی آبادی کے ساتھ سماجی و ثقافتی رشتے استوار کر لیے۔ ایران میں بھی خراسان، سیستان و بلوچستان اور دیگر صوبوں کے لوگ افغان مہاجرین کے ساتھ تجارتی اور روزمرہ تعلقات میں جڑے رہے۔ اس قربت نے مہاجرین کو ایک ایسی سہارا گاہ فراہم کی جہاں وہ اپنی شناخت کے ساتھ جیتے رہے، اگرچہ قانونی و دستاویزی مشکلات ان کے ہمراہ رہیں۔ لیکن اس میزبانی کی قیمت بھی دونوں ممالک نے چکائی۔ معاشی دبا، روزگار کے مواقع پر مسابقت، وسائل کی تقسیم اور بنیادی سہولیات پر بوجھ بڑھنے جیسے مسائل مسلسل موجود رہے۔ پاکستان میں مہاجر کیمپوں سے شہروں کی طرف ہجرت نے بے ہنگم آبادی میں اضافہ کیا، شہری انفراسٹرکچر پر دبائو بڑھایا اور سکیورٹی خدشات کو جنم دیا۔ ایران میں معاشی پابندیوں، داخلی مہنگائی اور بیروزگاری کے بڑھتے رجحان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کو مزید مشکل بنا دیا۔ دونوں ممالک کے لیے یہ ایک مستقل چیلنج رہا کہ کس طرح اپنے شہریوں کی ضروریات اور مہاجرین کی ضروریات میں توازن پیدا کیا جائے۔
مہاجرین کے مسائل میں سب سے نمایاں قانونی حیثیت کا بحران رہا۔ پاکستان میں بہت سے افغان مہاجرین دہائیوں گزرنے کے باوجود مستقل شہریت یا پائیدار قانونی حیثیت حاصل نہ کر سکے۔ رجسٹریشن کارڈز کی تجدید، قیام کی اجازت ناموں کی توسیع اور شناخت کے مسائل ان کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش بنے رہے۔ ایران میں بھی مہاجرین کو بسا اوقات غیرقانونی حیثیت کے باعث نقل و حرکت اور ملازمت کے انتخاب میں محدودیاں سہنی پڑیں۔ اس سب کے باوجود دونوں ممالک نے بنیادی صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع کسی نہ کسی حد تک مہیا کیے، جو دنیا کے کئی دیگر خطوں میں مہاجرین کو نصیب نہیں ہوتے۔ گزشتہ برسوں میں، بدلتے سیاسی و سکیورٹی حالات کے پیش نظر، ایران اور پاکستان نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے پالیسیاں ترتیب دیں۔ پاکستان نے ایک منظم ری پیٹریئیشن پروگرام کے تحت اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ مل کر رضاکارانہ واپسی کی سہولت فراہم کی، جس کے تحت واپسی کرنے والے خاندانوں کو مالی امداد دی گئی۔ ایران نے بھی افغان حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے واپسی کے عمل کو مرحلہ وار آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
ایران اور پاکستان کے موقف میں کچھ نمایاں فرق بھی موجود ہیں۔ پاکستان کا موقف عمومی طور پر یہ رہا ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران ایک علاقائی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے، اور جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا، بڑے پیمانے پر واپسی ممکن نہیں۔ اس لیے پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے بارہا مدد اور مالی تعاون کا مطالبہ کیا۔ ایران نے بھی اسی طرح عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کی لیکن اپنے اندرونی معاشی حالات اور پابندیوں کے پیش نظر افغان مہاجرین کے بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کی صلاحیت پر کھل کر بات کی۔ ایران کی پالیسی میں افغان مہاجرین کی قانونی حیثیت کے تعین اور مرحلہ وار واپسی پر زیادہ زور دیا گیا، جب کہ پاکستان نے عشروں تک بڑی تعداد میں مہاجرین کو نسبتاً آزادانہ قیام کی اجازت دی، چاہے رجسٹریشن کے مسائل برقرار رہے۔ اس پورے عرصے میں دونوں ممالک نے انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ میزبانی جاری رکھی، حالانکہ بین الاقوامی برادری کی توجہ اور امداد اکثر ناکافی رہی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ چار دہائیوں تک لاکھوں مہاجرین کو پناہ دینا محض حکومتی فیصلوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اس معاشرتی مزاج کا عکاس بھی ہے جو ہمسائیوں کو مشکل وقت میں سہارا دینے کو انسانی فرض سمجھتا ہے۔
چار دہائیوں میں افغان بچوں نے ایرانی اور پاکستانی اسکولوں میں تعلیم پائی، افغان کاریگروں نے مقامی صنعتوں میں حصہ ڈالا، اور افغان خواتین نے محنت مزدوری کے ذریعے اپنے خاندانوں کو سہارا دیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی محض نعرے نہیں بلکہ عملی طور پر زندہ اقدار ہیں۔ اب جب کہ دونوں ممالک افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے فیصلے پر عمل پیرا ہیں، یہ مرحلہ نہ صرف سیاسی و انتظامی بلکہ انسانی لحاظ سے بھی ایک نازک موڑ ہے۔ چالیس سالہ میزبانی کے بعد واپسی کا عمل مہاجرین کے لیے ایک نئے باب کی شروعات ہے، یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ جس خطے میں آج بھی تنازعات اور غربت کے سائے ہیں، وہاں چار دہائیوں تک لاکھوں انسانوں کو پناہ دینا ایک ایسا عمل ہے جو محض اعداد و شمار سے نہیں تولا جا سکتا، بلکہ انسانی قدروں کی بنیاد پر یاد رکھا جائے گا۔







