Column

آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے !

آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے !
تحریر: امجد آفتاب

آزادی کا مطلب ہے کسی بھی قسم کی پابندی یا قید سے رہائی۔ یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جو فرد کو اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ آزادی میں سیاسی، معاشی، سماجی اور ذاتی سطح پر بہت سی چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔
آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے جو فرد کو اپنی زندگی مکمل طور پر گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے، ترجمہ: ’’ ہم نے اس کو راہ سجھا دی، چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا ‘‘۔
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایمان، عقیدہ اور توحید سے متعلق معاملات میں، جو کہ سب سے زیادہ اہم معاملات ہیں، انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔ یعنی سمیع و بصیر بنا کر اور اپنے نبیوںٌ اور اپنی کتابوں کے ذریعے شکر و کفر کا راستہ بتاکر اس کو اختیار دے دیا کہ وہ جس راستے کو چاہے اپنے لیے منتخب کرے۔ جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا، اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
چنانچہ فرمایا، ترجمہ: ’’ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت سے انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’ اور اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کر لیتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن بن جائیں؟‘‘۔
اور ایک جگہ فرمایا، ترجمہ: ’’ تم یاددہانی کر دو، تم بس ایک یاددہانی کر دینے والے ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں مقرر ہو‘‘۔
اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے افراط اور تفریط کی غیر فطری روش سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اپنائی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان پابند محض نہیں ہے کہ اس کو کسی طرح کے ارادہ و اختیار کی آزادی نہ ہو۔ اسی طرح وہ اس قسم کی موہوم اور بے مہار آزادی کو خارج کرتا ہے جو سماج میں انتشار اور بد امنی کا سبب بنے یا جس سے فساد فی الارض رونما ہوتا ہو۔ اسلام ارادہ و اختیار کی آزادی کو سراہتے ہوئے، جبر و اکراہ کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا فریضہ تصور کرتا ہے جس سے دست برداری جائز نہیں۔ وہ ایک خدائے واحد کی بندگی کا پابند بناکر سیکڑوں خداں کی بندگی سے انسان کو آزادی دلاتا ہے۔ انسانی بھائی چارے کو تقویت پہنچا کر مضبوط، پائیدار اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ جان، مال، دین، عقل، عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بناکر ترقی و خوشحالی کے وسیع امکانات پیدا کرتا ہے۔ منضبط آزادی کا پروانہ عطا کرکے انسان کو سعادت دارین کی شاہ راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
دراصل اسلام کا تصور آزادی بہت وسیع ہے۔ اسلام جب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے تو وہ انسان کو ہر اس چیز سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی عزت و کرامت کو نیست و نابود کرنے والی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے دل اور جذبات کو شیطانی محرکات اور نفسانی خواہشات کے غلبے سے آزاد کرتا ہے۔ اس کی عقل اور سوچ کو اوہام و خرافات اور فکری انحرافات کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔ وہ اس کے جسم و جان کو غلامی، رُسوائی، اور ظلم و جبر کے عناصر سے آزاد کرتا ہے۔ وہ انسان کو صرف اللہ وحدہ لاشریک کا بندہ بناتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے آزادی، عزت اور امتیاز کی زندگی پسند کی ہے۔
ارشاد خداوندی ہے، ترجمہ: ’’ اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطا کی۔ اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی‘‘۔
اسی سیاق میں حضرت عمر ؓ کا مشہور قول ہے کہ ’’ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا جب کہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا؟‘‘۔
انسان جب جواب دہی کی بات کرتا ہے تو وہ انسان کی تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ اسے ایک امانت خیال کر کے اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کرے۔ ایسا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ یہ بات بھی ایمان کے تقاضوں میں شامل ہو۔
قرآن کہتا ہے، ترجمہ: ’’ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں‘‘۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے ایک حدیث نبویؐ مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’ جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو شخص وعدے کا پابند نہیں ہے اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔
اسلام تمام انسانوں کو اپنے اپنے دائرہ عمل اور استطاعت و وسعت کے اعتبار سے جواب دہ قرار دیتا ہے۔
صحیح حدیث میں ہے، ترجمہ: ’’ ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی اپنی ذمہ داری کی بابت باز پرس ہوگی‘‘۔ انسان کی جواب دہی کا دائرہ صرف دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مسوولیت کا سلسلہ آخرت تک دراز ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی اس انداز میں تربیت کرتا ہے کہ وہ جواب دہی کے معاملے کو آسان نہ سمجھیں۔ خاص طور پر جب معاملہ عام الناس کے مفادات کی نگرانی کا ہو۔ اسلام میں ذمہ داری جتنی بڑی ہوتی ہے، احساس ذمہ داری بھی اسی قدر شدید ہوتا ہے۔
یوں تو آزادی اسلامی شریعت کا لازمی مطالبہ بھی ہے اور شرف انسانی کا لازمی تقاضا بھی، لیکن آزادی کے سفر کو شروع کرنے کے لئے، غوروفکر کے راستے پر نکلنے کے لیے، سماج اور سیاست کے تعلق سے اپنے کردار کو آزادی کے ساتھ ادا کرنے کے لیے کچھ پیشگی شرطیں (preconditions)بھی ہیں، جن کے بغیر آزادی ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس تعلق سے تین نہایت ہی اہم اور بنیادی شرطیں ہیں ۔
پہلی شرط: انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل۔ کوئی بھی انسان اگر اس کے پاس بھوک مٹانے کو کھانا نہ ہو، پیاس بجھانے کو پانی نہ ہو، رات گزارنے کے لیے کوئی چھت نہ ہوتو اس کے لیے آزادی ایک بے معنی چیز ہوگی۔ چنانچہ انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا انتظام کسی بھی معاشرے کے اجتماعی نظم کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کا دستور وہاں کے شہریوں کو مکمل آزادی دینے کا وعدہ کرتا ہو، لیکن وہاں کی حکومت ان شہریوں کی بنیادی ضروریات کے تعلق سے توجہ نہ دے تو اس دستور میں دی گئی آزادی کا کیا حاصل؟۔
دوسری اہم شرط: تعلیم کا انتظام۔ تعلیم کے بغیر آزادی اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔
تیسری سب سے اہم شرط: عدل و انصاف پر مبنی سماج۔
روسو کے مطابق آزادی اسی وقت اخلاقی اور قانونی قدروں کی پابند ہوگی جب سماج عدل پر قائم ہو۔ بصورت دیگر آزادی اپنی اہمیت اور وقار کھونے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
آزاد قومیں اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی خود بناتی ہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ملک و قوم کو چند پیسوں کی خاطر سامراج کے ہاتھوں گروی نہیں رکھتیں، ان کے سامنے اپنا قومی مفاد سب سے پہلے ہوتا ہے۔ اور تمام فیصلے اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کرتی ہیں۔ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوتیں۔
آج ہمارا ملک، ہمارا ایمان، ہمارا مذہب اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بجائے رسمی آزادی کے ہم حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کریں اس ملک کو جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام سے نجات دلائیں۔ اور ایسے نظام کی کوشش کریں کہ جس کی وجہ سے معاشرے میں موجود فکری انتشار کا خاتمہ ہو۔ سیاسی امن قائم ہو، معاشی مساوات کا بول بالا ہو اور سماجی انصاف کا قیام ممکن ہوسکے۔ تاکہ تمام لوگوں کو بغیر رنگ، نسل اور مذہب پھلنے پھولنے کے مواقع میسر ہوں اور معاشرہ بحیثیتِ مجموعی ترقی کرے۔
تب ہم حقیقی آزادی منائیں گے۔ جس طرح فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ نے آزادی اور خوشی کا دن منایا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ملک و قوم کو غلامی سے نکالنے اور حقیقی آزادی اور خوشحالی کی طرف لیجانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔

امجد آفتاب

جواب دیں

Back to top button