Column

یہاں جرم طاقت ہے، قانون مجبوری

یہاں جرم طاقت ہے، قانون مجبوری
تحریر: یاسر دانیال صابری

دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ’’ قانون‘‘ کو انصاف کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ قانون کا مقصد سب کو برابر رکھنا ہے، چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر، وزیر ہو یا مزدور، امیر ہو یا غریب۔ مگر ہمارے ہاں یہ اصول الٹ چکا ہے۔ یہاں جرم محض برائی نہیں رہا، بلکہ طاقت کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ وہ طاقت جو اثر و رسوخ بناتی ہے، دروازے کھولتی ہے، اور خود کو قانون سے بالاتر ثابت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کس طرح ایک طاقت ور شخص عدالت میں پیش ہوتا ہے؟ ہنستا ہوا چہرہ، فلیش لائٹس میں جگمگاتا، اور اس کے ساتھ درجنوں گاڑیاں، سیکڑوں کارکن، اور ٹی وی کیمروں کا ہجوم۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ملزم نہیں، کوئی فاتح ہے جو عدالت کو اپنی طاقت دکھانے آیا ہو۔ اس کے برعکس، ایک عام شہری جو کسی چھوٹے سے الزام میں پکڑا جاتا ہے، خاموشی سے، جھکی آنکھوں کے ساتھ ہتھکڑیوں میں عدالت میں کھڑا کیا جاتا ہے، جیسے وہ مجرمِ اعظم ہو۔
یہاں قانون کے دو چہرے ہیں، ایک چہرہ طاقتور کے لیے، جو مسکراتا ہے، سہولتیں دیتا ہے اور کبھی آنکھ نہیں دکھاتا۔ دوسرا چہرہ کمزور کے لیے، جو سخت، ظالم اور بے رحم ہے۔ یہ چہرہ ہر معمولی غلطی پر فوراً حرکت میں آتا ہے، مگر طاقتور کے سامنے خاموش کھڑا رہتا ہے۔
طاقت اور جرم کا یہ رشتہ نیا نہیں۔ تاریخ میں ایسے کئی ادوار گزرے ہیں جب حکمرانوں نے اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے قانون کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج ہم اکیسویں صدی میں بھی اسی سوچ کے قیدی ہیں۔ یہاں جس کے پاس دولت، سیاست یا اداروں میں تعلقات کا سہارا ہے، وہ بڑے سے بڑا جرم بھی بیل، سفارش یا خاموشی کے پردے میں چھپا لیتا ہے۔ اس کے خلاف مقدمات برسوں چلتے ہیں، مگر فیصلے ہمیشہ ریت کی دیوار کی طرح گر جاتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے وہ بڑے بڑے سکینڈلز، جو ٹی وی پر دن رات چلتے تھے، جن پر پوری قوم بحث کرتی تھی؟ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جن کا نتیجہ واقعی انصاف کی شکل میں نکلا؟ زیادہ تر کہانیاں وقت کے دھند میں گم ہو گئیں، یا کسی ’’ مفاہمت‘‘ کے تحت دفن کر دی گئیں۔
یہ صرف سیاست تک محدود نہیں۔ ہمارے اداروں میں بھی یہی چلن ہے۔ طاقتور افسر بدعنوانی کرے، تو معاملہ فائلوں میں دب جاتا ہے۔ مگر ایک معمولی ملازم اگر چھٹی کے لیے جھوٹ بول دے، تو اس پر انضباطی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ہے ہمارا انصاف کا ترازو۔ جس میں طاقت ور کا جرم ہلکا اور کمزور کا جرم بھاری ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ شاید یہ بات درست ہو، مگر ہمارے ہاں قانون صرف ایک آنکھ بند کرتا ہے ، اور وہ بھی ہمیشہ طاقتور کی طرف۔ کمزور کی طرف دیکھتے وقت یہ آنکھ پوری کھل جاتی ہے، اور اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی ہے۔
اس دوغلے نظام کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ عام لوگوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ ’’ طاقتور بن جائو، پھر قانون تمہارے پیچھے نہیں آئے گا‘‘۔ یہی سوچ معاشرے میں بدعنوانی کو جڑ سے ختم ہونے نہیں دیتی۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگ بچ جاتے ہیں، تو وہ بھی چھوٹے چھوٹے جرم کرنے میں حرج نہیں سمجھتے۔ یوں جرم عام ہو جاتا ہے، اور قانون کا خوف صرف کمزور کے لیے رہ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ صرف ایک اخلاقی بحران نہیں، بلکہ ریاست کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جب عوام کو یہ یقین ہو جائے کہ قانون ان کے لیے نہیں، بلکہ ان کے خلاف ہے، تو وہ قانون پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے خود راستے تلاش کرتے ہیں، چاہے وہ راستے غیر قانونی ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشرہ ٹوٹنے لگتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ نظام ایک ایسے دائرے میں پھنس چکا ہے جہاں جرم طاقت بناتا ہے، طاقت قانون کو خرید لیتی ہے، اور قانون کمزور کو کچل دیتا ہے۔ یہ دائرہ تب تک نہیں ٹوٹے گا جب تک ہم سب اس بات پر متفق نہ ہوں کہ قانون سب کے لیے برابر ہوگا ۔ چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔
یہ ایک مشکل سفر ہے، کیونکہ اس کے لیے ہمیں صرف قانون بدلنا نہیں، بلکہ سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جرم جرم ہے، چاہے وہ کوئی عام آدمی کرے یا ایک وزیرِاعظم۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ انصاف کا مطلب بدلہ لینا نہیں، بلکہ برابری قائم کرنا ہے۔
اس کالم کا مقصد محض تنقید کرنا نہیں، بلکہ ایک آئینہ دکھانا ہے۔ اس آئینے میں جو چہرہ نظر آ رہا ہے، وہ ہم سب کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس چہرے کو ایسے ہی دیکھتے رہیں گے، یا اسے بدلنے کی کوشش کریں گے؟
اگر ہم نے یہ سوال آج حل نہ کیا، تو کل شاید یہ معاشرہ صرف دو طبقات میں بٹ جائے گا ۔ وہ جو قانون سے اوپر ہوں گے، اور وہ جو قانون کے نیچے دبے ہوں گے۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب یہ فاصلہ حد سے بڑھ جائے، تو ریاستیں بھی مضبوط دیواروں کی طرح گر جاتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button