پاکستان کا قیام: مقاصد، قربانیاں اور آج کا المیہ

پاکستان کا قیام: مقاصد، قربانیاں اور آج کا المیہ
تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
پاکستان کی تاریخ محض جغرافیے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظریاتی انقلاب کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے علامہ اقبال کی فکر، قائداعظمؒ کی قیادت اور لاکھوں شہداء کے خون سے تعبیر کیا۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جو مقصد لے کر یہ ملک معرضِ وجود میں آیا، آج وہی مقصد اجنبیت کا شکار ہے۔ قوم جن قربانیوں کو یاد کر کے آنکھیں نم کر لیتی ہے، وہی قوم آج اخلاقی، فکری اور نظریاتی زوال کی پستیوں میں بھٹک رہی ہے۔
قیامِ پاکستان کے پس منظر میں سب سے بنیادی عنصر یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں۔ ان کی تہذیب، تمدن، تاریخ، مذہب، زبان، لباس، عبادات، اجتماعی زندگی اور اقدار ہندو اکثریت سے بالکل مختلف تھیں۔ علامہ اقبالؒ نے اس فرق کو نہایت شدت سے محسوس کیا اور مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کی حیثیت سے ابھرنے کی دعوت دی۔ 1930ء کے خطبہ الہٰ آباد میں انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان میں ایک الگ مسلم ریاست کا قیام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے جہاں مسلمان اپنے دین، تہذیب اور ثقافت کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ جنہوں نے ابتدا میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا تھا، بعدازاں ہندو قیادت کے تعصب، گاندھی کی منافقانہ پالیسیوں، نہرو کی ہندو سامراجیت اور کانگریس کے مسلم دشمن رویے کو بھانپتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست درکار ہے۔ 1940ء میں قراردادِ لاہور کے ذریعے اس نظریے کو باقاعدہ سیاسی حیثیت دی گئی اور پھر سات سال بعد 14اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
لیکن یہ آزادی یوں ہی حاصل نہیں ہوئی۔ برصغیر کی سرزمین پر ایسی قیامت برپا ہوئی کہ انسانیت بھی شرما گئی۔ لاکھوں مسلمان جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے، انہیں بیدردی سے قتل کر دیا گیا، ان کی عزتیں پامال ہوئیں، مال و اسباب لوٹ لیے گئے، بچے یتیم، مائیں بیوہ اور گھر اجڑ گئے۔ ریلوے گاڑیوں میں لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے گئے۔ لاہور، امرتسر، دہلی، مشرقی پنجاب سے لے کر بنگال تک مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔ مگر ان سب نے پاکستان کی محبت میں جانیں قربان کیں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں ایک ایسی سرزمین پر پروان چڑھیں جہاں اسلام کا نظام نافذ ہو، انصاف ملے، قرآن کا قانون ہو اور مسلمان سر اٹھا کر جئیں۔
ان عظیم قربانیوں کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا، وہ محض زمین کا ٹکڑا لینا نہیں تھا۔ پاکستان لا الہ الا اللہ کے نظریے پر قائم ہوا۔ اس کا مطلب ایک ایسی ریاست تھا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی روشنی میں چلے، جہاں اقلیتوں کو بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو، جہاں ظلم کے بجائے عدل ہو، کرپشن کے بجائے دیانت داری ہو، ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی خیر کو مقدم رکھا جائے اور علم و عمل کو ریاستی نصب العین بنایا جائے۔
مگر آج 77سال بعد اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مقصد جس کے لیے لاکھوں نے جانیں دیں، وہ نظریہ آج ہمارے تعلیمی نصاب سے غائب ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو معلوم ہی نہیں کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔ نصاب میں محض تاریخ کے چند رٹے رٹائے واقعات، چند شخصیات کے نام اور سال درج ہیں مگر ان کے پیچھے موجود فکر، مقصد اور فلسفہ عنقا ہے۔
سیاسی قیادت نظریہ پاکستان کو فراموش کر چکی ہے۔ جن لوگوں نے قائداعظمؒ کا نام لے کر اقتدار حاصل کیا، وہی لوگ سب سے زیادہ ان کے نظریے سے غداری کے مرتکب ہوئے۔ ریاستی ادارے کرپشن، اقربا پروری اور ذاتی مفاد کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ عدل کا نظام طبقاتی بن چکا ہے۔ غریب کے لیے قانون کی گرفت سخت ہے اور امیر کے لیے سب کچھ نرم۔
معاشرتی طور پر ہم شدید انحطاط کا شکار ہیں۔ ہماری اقدار، اخلاقیات اور خاندانی نظام تیزی سے زوال پذیر ہے۔ میڈیا مغرب زدہ کلچر کا پرچار کرتا ہے۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں گم ہو چکی ہے۔ دینی حمیت اور فکری شعور مٹتا جا رہا ہے۔ نوجوان جنہوں نے کبھی اسلام کے غلبے کے خواب دیکھے تھے، آج بیرون ملک جانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ انہیں پاکستان ایک بوجھ لگنے لگا ہے۔
تعلیم کا شعبہ جو کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، انتشار، سطحیت اور مقصدیت کے فقدان کا شکار ہے۔ سکول، کالج اور جامعات محض امتحان پاس کرنے اور نوکری حاصل کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔ دین، اخلاق، تہذیب، تحقیق اور تخلیقی سوچ کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔
معاشی میدان میں بھی پاکستان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ قائداعظمؒ نے جس خودداری، خودانحصاری اور محنت کے فلسفے کی تلقین کی تھی، ہم نے اسے ترک کر کے قرضوں، امدادوں اور سودی معیشت پر انحصار شروع کر دیا۔ عالمی ادارے ہماری معیشت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ زراعت، صنعت، تجارت، سب بحرانوں کی زد میں ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا تشخص کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ جو ملک اسلامی دنیا کا قلعہ کہلاتا تھا، آج وہ خود اسلامی دنیا میں تنہائی کا شکار ہے۔ کشمیری آج بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، مگر ہم نے ان کی حمایت محض تقریروں اور یومِ یکجہتی تک محدود کر دی ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کے لیے بھی ہماری آواز کمزور ہے۔
ان سب المیوں کے پیچھے جو بنیادی مسئلہ ہے، وہ نظریے سے دوری ہے۔ ہم نے پاکستان کو محض زمین کا ٹکڑا سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ ایک نظریہ تھا، ایک مشن، ایک مقدس امانت۔ جب تک ہم اس امانت کو پہچانیں گے نہیں، اسے نبھائیں گے نہیں، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود احتسابی کریں۔ ہم اپنے نظامِ تعلیم، نظامِ عدل، نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو اس نہج پر استوار کریں جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا۔ ہمیں ایک بار پھر قرآن و سنت کو اپنا رہنما بنانا ہوگا۔
ہمیں نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا ہوگا۔ نصاب میں حقیقی تاریخ، سیرت، اسلامی اقدار اور فکری شعور کو جگہ دینی ہوگی۔ میڈیا کو ایک ذمہ دار کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ قوم کی فکری رہنمائی کرے، نہ کہ مغربی اقدار کی ترویج۔
ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا، ان کی روح کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ ہمیں قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا ہوگا۔ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہوگا جو دنیا کے لیے ایک نمونہ ہو، جہاں عدل ہو، امن ہو، علم ہو اور تقویٰ ہو۔
اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں تو یہ قوم دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔ ہمارا ماضی شاندار ہے، ہمارے وسائل بے پناہ ہیں، ہماری افرادی قوت جوان ہے، ہمارے علما، دانشور اور محققین موجود ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر اس وعدے کو یاد کریں جو 1947ء میں اللہ سے کیا تھا کہ ہم اس ریاست میں تیرے دین کو غالب کریں گے۔ آج کا المیہ یہی ہے کہ ہم نے اپنا وعدہ بھلا دیا اور جب کوئی قوم اپنے وعدے سے منحرف ہو جائے تو اللہ بھی اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ لہٰذا آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ ہم پاکستان کو اس کے اصل نظریاتی قالب میں ڈھالیں، اس کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا ملک چھوڑیں جو اقبالؒ کے خواب، قائداعظمؒ کی جدوجہد اور شہدا کے خون کی حقیقی تعبیر ہو۔ یہی پاکستان کی بقا کا راستہ ہے، یہی ہماری فلاح کا ذریعہ ہے اور یہی ہمارے رب سے کی گئی عہد کی تکمیل ہے۔
ریاض علیمی







