ColumnRoshan Lal

ملک ریاض، بحریہ ٹائون اور وہاں کے رہائشی

ملک ریاض، بحریہ ٹائون اور وہاں کے رہائشی
تحریر :روشن لعل

پاکستان کے مشہور و معروف رئیل اسٹیٹ بزنس مین اور ان کی بحریہ ٹائون کا انفرا سٹرکچر ان دنوں شدید مسائل کا شکار نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ ملک ریاض اور ان کی بحریہ ٹائون پہلی مرتبہ مشکلات کا شکار نہیں ہوئے ۔ ملک ریاض کی کوششوں سے بنائی گئی، خاص اداروں کے ریٹائرڈ لوگوں کی ٹیم کی چھتر چھایہ میں بحریہ ٹائون نے جس طرح ترقی کی اسے دیکھتے ہوئے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مستقبل میں اس رہائشی منصوبے کو کبھی کوئی چیلنج درپیش ہوگا۔ یہ اندازے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کا کرپشن سکینڈل بذریعہ ملک ریاض سامنے آیا۔ ملک ریاض نے ارسلان افتخار کی مبینہ کرپشن اس موقف کے تحت عیاں کی تھی کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد ایسا کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو عدالتی عمل کے ذریعے مختلف مقدمات کے تحت ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور دوسری طرف ارسلان افتخار نے ان مقدمات کے خاتمے عوض ان سے کروڑوں روپے کے اخراجات کرائے۔
واضح رہے کہ ملک ریاض حسین نے 1980ء کی دہائی میں رئیل اسٹیٹ بزنس کا آغاز کیا اور آئندہ 25برسوں کے دوران اس کاروبار کو نیا موڑ دے کر ترقی کے نئے راستوں پر گامزن کر دیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں، بحریہ ٹائون کے قیام سے قبل ہی رئیل اسٹیٹ بزنس میں خرافات قرار دیئے گئے کچھ غیر مناسب طریقے رواج پا چکے تھے۔ ایسی خرافات کے حوالے سے جو مثالیں پیش کی جاتی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ کار اپنی ہائوسنگ سکیموں کے لیے غنڈہ عناصر کے ذریعے شریف اور بے بس لوگوں کو زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسی مثالوں کے برعکس یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلے تو لوگ کسی جبر و کراہ کے بغیر اپنی زمینیں رائج الوقت نرخوں پر فروخت کرتے ہیں مگر جب ڈیویلپمنٹ کے بعد ان زمینوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو تا ہے تو وہ مزید پیسے بٹورنے کے لیے یہ واویلا کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو مقدمہ بازی میں الجھا دیتے ہیں کہ انہیں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے زمین فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کسی وجہ سے ڈر کر اپنی زمینیں فروخت کرنے والے لوگوں میں بعد ازاں بھی اتنی ہمت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ غنڈہ عناصر کے سامنے کھڑے ہوں ، لہذا جو لوگ رئیل اسٹیٹ کے طاقتور لوگوں سے مقدمہ بازی میں الجھتے ہیں ان میں سے اکثر نے بخوشی اپنی زمینیں بیچی ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ یاتو خود اتنے طاقتور ہوتے ہیںکہ رئیل سٹیٹ کے بااثر سرمایہ کاروں سے ٹکر لے سکیں یا انہیں سرمایہ کاروں کے کاروباری یا دیگر حریفوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
بحریہ ٹائون پاکستان میں رئیل اسٹیٹ بزنس کا ایک بڑا نام ہے۔ اس کی ہائوسنگ سکیموں کے لیے جب مختلف وقتوں میں مختلف لوگوں سے زمینیں خریدی گئیں تو اس کے خلاف بھی رئیل سٹیٹ بزنس کے روایتی مقدمات کا آغاز ہوگیا۔ جب ملک ریاض حسین نے ڈاکٹر ارسلان افتخار پر ناجائز مراعات حاصل کرنے کے الزامات لگائی تو اس کے بعد بحریہ ٹائون سے جڑے وہ مقدمات سنسنی خیز خبروں کے جلو میں ایک خاص سمت کی طرف جاتے ہوئے محسوس ہونے لگے جن سے میڈیا پہلے لاتعلق رہا۔ بعد ازاں جب ارسلان افتخار پر ملک ریاض کے عائد کردہ الزامات کو عوام کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر نمٹا دیا گیا تو بحریہ ٹائون کے خلاف پہلے سے موجود مقدمات بھی پس منظر میں چلے گئے۔
ملک ریاض دوسری مرتبہ اس وقت عدالتی عتاب کا شکار نظر آئے جب انہوں نے اسی طرح کراچی میں بحریہ ٹائون کا آغاز کیا جس طرح وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ہائوسنگ سکیمیں بنا چکے تھے ۔ بحریہ ٹائون کے کراچی میں آغاز سے قبل وہاں کا سب سے بڑا او مہنگا رہائشی منصوبہ ڈیفنس تھا۔ ڈیفنس کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کو قائم تو 1950 ء کی دہائی میں مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران نے کیا تھا مگر 1981ء میں جنرل ضیا الحق کے حکم کے تحت اسے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کا نام دے کر برا ہ راست کور کمانڈر کراچی کے زیر انتظام کر دیا گیا۔ شاید ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کی کامیابیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ملک ریاض نے بحریہ ٹائون کی ڈیویلپمنٹ اور انتظام و انصرام کے لیے ریٹائرڈ فوجی افسران پر مشتمل ٹیم بنانے کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور سپریم کورٹ نے پہلے تو بحریہ ٹائون کراچی کے خلاف بہت تند و تیز بیانات دیئے لیکن پھر یہ معاملہ اس طرح نمٹایا گیا کہ اسی میں سے عمران خان کے خلاف 190ملین پونڈ کرپشن کا کیس برآمد ہوا۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ عمران خان کے خلاف 190ملین پائونڈ کرپشن کیس کے تسلسل میں ملک ریاض پر ریاست کا تیسرا غیض و غضب اس طرح نازل ہوا کہ وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے، مگر اندر کی خبریں رکھنے کے دعوے داروں کو کہنا ہے کہ جو بظاہر نظر آرہا ہے معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر ملک ریاض تو اپنے اہل و عیال سمیت بخیر و عافیت بیرون ملک منتقل ہو گئے لیکن ملک کے بڑے شہروں میں موجود ان کی بحریہ ٹائون اور اس کے رہائشی اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ جب سے ملک ریاض کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ بحریہ ٹائون کا آپریشن بند کرنے سے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑے ہیں اس وقت سے وہاں کے رہائشیوں کے بے چینی میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ بحریہ ٹائون کا آپریشن بند ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر قبل ازیں وہاں صفائی کا نظام مثالی تھا، سیکیورٹی ہر وقت مستعد نظر آتی تھی اور بجلی کی خرابی یا نکاسی و فراہمی آب کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک فون کال پر الیکٹریشن یا پلمبر فوراً دستیاب ہو جاتے تھے تو آئندہ ایسا ہونا ممکن نہیں رہے گا۔ اگر بحریہ ٹائون میں آپریشن بند ہو گیا تو ملک ریاض کی مالی حیثیت کو تو شاید زیادہ فرق نہ پڑے لیکن آپریشن پر مامور انتظامیہ کے ہزاروں ملازمین کے بے روزگار ہونے کے ساتھ وہاں کے رہائشیوں کی جان و مال اور سرمایہ کاری کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ یہ بات عام فہم ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی جو کثیر زر مبادلہ یہاں بھیجتے ہیں وہ زیادہ تر رئیل اسٹیٹ بزنس میں انویسٹ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی انویسٹمنٹ کی لیے سب سے زیادہ اعتماد بحریہ ٹائون پر ہی کیا جاتا رہاہے۔ اگر آئندہ بحریہ ٹائون میں دستیاب شہری سہولتوں کی فراہمی حسب سابق نہ رہی تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اس ادارے اور رئیل اسٹیٹ بزنس کے دوسرے پراجیکٹس میں کی گئی سرمایہ کاری شدید متاثر ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ بحریہ ٹائون کے موجودہ حالات سے صرف وہاں کے رہائشی ہی پریشان نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی بھی شدید بے چینی کا شکار ہیں جنہوں نے وہاں سرمایہ کاری کی غرض سے پلاٹ اور مکان خرید رکھے ہیں۔ ملک ریاض کے معاملات ریاست کے ساتھ پھر سے حسب سابق طے ہونا عین ممکن ہے مگر ایسا ہونے یا نہ ہونے تک ریاستی اداروں کو بحریہ ٹائون کے رہائشیوں اور وہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کی بے چینی ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button