Column

آزادی اور معرکہ حق، قومی خود داری کی نئی داستان رقم

آزادی اور معرکہ حق، قومی خود داری کی نئی داستان رقم
تحریر: اقصیٰ کنول
پاکستان کی تاریخ میں ایسے کئی لمحات آئے ہیں جب قوم نے بیرونی جارحیت کے مقابلے میں نہ صرف جرات کا مظاہرہ کیا بلکہ تدبر، صبر اور حکمتِ عملی سے ایسے بحرانوں کا سامنا کر کے عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو تقویت دی۔ ایسا ہی ایک اہم مرحلہ حالیہ بحران کی صورت میں سامنے آیا، جسے ایک مشتبہ دہشت گرد حملے کے بعد ہمارے دشمن کی جانب سے جان بوجھ کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور فوجی دبائو کی مہم کے طور پر تشکیل دیا گیا۔ ٔحالیہ بحران نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ پاکستان نہ صرف ایک ذمہ دار ریاست ہے بلکہ مشکل ترین حالات میں بھی حکمت، تحمل اور دفاعی بصیرت کے ساتھ اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا گیا، وہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ترتیب دیا گیا منصوبہ معلوم ہوتا ہے، نہ کہ ایک غیر متوقع واقعہ۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں پیش آنے والے اس واقعے کو شفاف تحقیقات سے قبل ہی پاکستان سے جوڑ دینا دراصل ایک طے شدہ بیانیے کا تسلسل تھا، جو بھارت کی جانب سے نہ صرف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے بلکہ خطے میں پاکستان کے کردار کو متنازعہ بنانے کی ایک مستقل کوشش ہے۔ ٔ
یہ رویہ کوئی نیا نہیں۔ بھارت ماضی میں بھی داخلی یا علاقائی سطح پر پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو پاکستان کے ساتھ منسلک کر کے نہ صرف سفارتی دبا بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے بلکہ فوجی چڑھائی کی دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے۔ تاہم اس بار بھی پاکستان نے نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان نے نہ صرف یکطرفہ الزام تراشیوں کو مسترد کیا بلکہ شفافیت کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی، جو کسی بھی مہذب اور قانون پسند ریاست کا شایانِ شان ردعمل ہے۔ بھارت کی طرف سے فضائی حملے، ڈرون سرگرمیاں اور میزائل حملوں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کا موقف مستقل رہا: دفاع ضروری ہے، لیکن جنگ کا آغاز ہماری طرف سے نہیں ہوگا۔ اس اصولی موقف کے باوجود، جب بھارتی اشتعال انگیزی ایک خاص حد سے تجاوز کر گئی، تو پاکستان نے نپا تُلا، سوچا سمجھا اور پیشہ ورانہ انداز میں جواب دیا۔ یہ ردعمل جذباتی نہیں، بلکہ مکمل فوجی، سفارتی اور اسٹریٹیجک ہم آہنگی کی عکاسی کرتا تھا۔
معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص کے دوران پاکستان بحریہ کا بھی کردار نہایت اہم رہا۔ بہترین حکمت عملی اور بھرپور آپریشنل تیاریوں کو دیکھ کر دشمن نے اپنے ہی سمندری علاقوں میں دُبک کر رہنے میں عافیت جانی۔ ایک بڑی بحری فوج کے ہوتے ہوئے بھی کوئی چھوٹی نوعیت کی کارروائی کی بھی ہمت نہ کی۔ سمندری دفاع اور ساحلی حفاظت کے لیے پاکستان بحریہ کے آفیسرز اور جوان ہر لحظہ تیار تھے۔ صمیم عزم، حب الوطنی اور حسبنا اللہ و نعم الوکیل کا جذبہ لیے وطن کے بحری دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے ہوئے تھے۔ آپریشن سندور کے دوران بھارتی بحریہ نے اپنے جنگی جہازوں، طیارہ بردار جہازوں بشمول مقامی سطح پر تیار کردہ آئی این ایس و کرانت اور آبدوزوں کو اگلی سرحدوں پر تعینات تو کیا مگر ہمت نہ بندھی۔ پاکستان بحریہ کی کڑی نگرانی نے بھارتی بحریہ کے جہازوں اور اثاثہ جات کی نقل و حرکت، آپریشنل تیاریوں کے بارے میں معلومات کو ممکن بنایا۔ پاکستان بحریہ نی اپنے جنگی جہازوں، آبدوزوں اور نگرانی کرنے والے جہازوں کو بروقت موزوں مقامات پر تعینات کیا۔ اس حکمتِ عملی سے دشمن اپنے ارادوں سے باز رہا اور تہہ در تہہ دفاع کو ممکن بنایا گیا۔ آپریشن معرکہ حق اور بنیان مرصوص پاکستان کی تینوں مسلح افواج کی ہم آہنگی، بہترین تعاون، باہمی ربط، اتحاد اور یک جہتی کی بہترین مثال تھے۔ افواج پاکستان نے دشمنان پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں افواج پاکستان ہر طرح کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ دشمن چاہے تعداد میں بڑا ہی کیوں نہ ہو اور زیادہ حربی و جنگی سازوسامان سے لیس ہو لیکن پاک افواج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں، جذبہ اور عزم ہمیشہ بالا و بر تر رہے گا۔ پاکستان نہ مٹنے کے لیے بنا ہے اس کا دفاع ہر قیمت اور ہر قربانی سے کیا جائے گا۔
میڈیا کے محاذ پر بھارت کی جانب سے پھیلایا گیا جھوٹا پروپیگنڈا بھی توجہ طلب ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے نشر کیے گئے الزامات اور ’’ کراچی پر حملہ‘‘ جیسے سنسنی خیز مگر بے بنیاد دعوے نہ صرف حقائق کے منافی تھے بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں اطلاعات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دعوئوں کی قلعی خود وقت کے ساتھ کھل گئی، اور پاکستان کے موقف کو عالمی میڈیا اور کئی غیر جانب دار مبصرین کی تائید حاصل ہوئی۔
ان تمام پہلوئوں کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ اس بحران کا اصل پہلو صرف اس کی ابتدا نہیں تھی، بلکہ پاکستان کا تدبر اور اس کا باوقار اور سنجیدہ ردعمل اصل کہانی ہے۔ جہاں بھارت نے ایک جذباتی، سیاسی اور عسکری مہم چلا کر جنگی فضا بنانے کی کوشش کی، وہیں پاکستان نے تدبر، تحمل اور عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی خود مختاری کا دفاع کیا۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جو آج کے عالمی نظام میں ایک ذمے دار ریاست کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف ایک عسکری ردعمل یا سفارتی چال نہیں تھا، بلکہ ریاستِ پاکستان کی اسٹریٹیجک سوچ کا مظہر تھا، جہاں دفاع اور امن کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت کو بخوبی سمجھا گیا۔ اس بحران نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان نہ صرف امن کا خواہاں ہے، بلکہ وہ کسی بھی جارحیت کا موثر، قانونی اور سنجیدہ جواب دینے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔
اس سارے تناظر میں جب قوم آزادی کا جشن مناتی ہے تو یہ جشن صرف ماضی کی قربانیوں کی یاد نہیں، بلکہ حال کی اس حکمت عملی کا اعتراف بھی ہونا چاہیے جس نے دشمن کی جارحیت کو نہ صرف روکا بلکہ موثر انداز میں اس کا جواب دے کر قومی وقار کو سربلند رکھا۔ آزادی محض ایک دن منانے کا نام نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جو ہر لمحہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ قومی خودمختاری کا تحفظ صرف میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ دانشمندانہ فیصلوں اور سچائی پر مبنی پالیسیوں کے ذریعی بھی کیا جاتا ہے۔
آج جب خطے میں طاقت کے توازن، میڈیا پراپیگنڈے اور معلوماتی جنگ کے ہتھیاروں کی بات ہوتی ہے، تو پاکستان کا یہ حالیہ کردار ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ پیغام نہ صرف دشمنوں کے لیے واضح ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ سچ، صبر اور تدبر وہ ہتھیار ہیں جو کسی بھی معرکے کو صرف جیتنے کے قابل نہیں بناتے، بلکہ اُسے ایک قابلِ فخر تاریخ میں بدل دیتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button