درختوں کے بغیر خیبر پختونخوا کے پہاڑ

درختوں کے بغیر خیبر پختونخوا کے پہاڑ
عقیل انجم اعوان
پہاڑی خطے ہمیشہ سے ماحولیاتی توازن اور قدرتی نظام کے اہم حصے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا سبزہ، درختوں کی موجودگی اور حیاتیاتی تنوع نہ صرف مقامی آبادی کے لیے ضروری ہے بلکہ ملکی ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں اب بھی ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں قدرتی جنگلات کسی حد تک موجود ہیں۔ صوبے کے کل رقبے کاقریباً 17فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جو کہ پاکستان کی قومی اوسط 5.1فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں میں جنگلاتی رقبے میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1990ء سے 2020ء تک صوبے میں اوسطاً سالانہ 1.5فیصد جنگلاتی رقبہ ختم ہوا جو ماحولیاتی اور سماجی دونوں حوالوں سے ایک اہم تشویش ہے۔ جنگلات کے خاتمے کے اثرات صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی بھی ہیں۔ پہاڑوں پر درخت مٹی کو تھامنے، بارش کے پانی کے بہاؤ کو کم کرنے، زمینی کٹاؤ کو روکنے اور سیلاب کے خطرات کو محدود کرنے میں قدرتی فصیل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب یہ رکاوٹ ختم ہو جائے تو بارش کا پانی براہ راست زمین پر گرتا ہے جس کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور نشیبی علاقے زیادہ تیزی سے زیرِ آب آ جاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع جیسے سوات، دیر، چترال، بونیر، مانسہرہ، کاغان ناران، گلگت اور سکردو میں اچانک آنے والے سیلابوں کی شدت اور تکرار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں پلوں کی تباہی، فصلوں کی بربادی، مکانات کے نقصان اور انسانی جانوں کے ضیاع کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ کئی دہائیوں کی انتظامی غفلت اور غیر موثر پالیسیوں بعض صورتوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ جنگلات کی کٹائی میں غیر قانونی ٹمبر مافیا کا کردار نمایاں ہے جو بعض اوقات مقامی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی چشم پوشی سے کام کرتا ہے۔ سیاسی سرپرستی اور قانون کی کمزور عملداری نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنایا ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے شجرکاری اور جنگلات کے تحفظ کے منصوبے شروع کیے لیکن ان میں شفافیت، تسلسل اور مؤثر نگرانی کا فقدان رہا۔2013ء میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ’’ بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبے کا آغاز کیا جس میں ایک ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اس منصوبے کو بعض ملکی و بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں جیسے WWFاور IUCNنے سراہا لیکن آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2019ء کی رپورٹ میں منصوبے کے مختلف پہلوئوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق بعض مقامات پر فرضی شجرکاری دکھائی گئی تھی بعض جگہ پودے لگائے ہی نہیں گئے اور بجٹ کے استعمال میں بے ضابطگیاں پائی گئیں۔ اس کے علاوہ مقامی صحافیوں اور ماحولیاتی ماہرین نے الزام عائد کیا کہ منصوبے کے دوران بھی بعض علاقوں میں جنگلات کی کٹائی جاری رہی۔ ان الزامات میں بعض سیاسی شخصیات کے نام بھی شامل تھے، تاہم ان کی عدالتی یا تحقیقاتی سطح پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگلات کے رقبے میں کمی ایک مسلسل عمل ہے۔ گلوبل فارسٹ واچ کے مطابق صرف 2018ء میں خیبر پختونخوا میں 2400ہیکٹرز جنگلات ختم ہوئے۔ یہ ڈیٹا کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ پورے نظام کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جنگلات کی کمی کے نتیجے میں پانی کا بہائو تیز ہو جاتا ہے جس سے سیلاب کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور زرعی زمینوں کو نقصان پہنچتا ہے۔2010ء کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے جس میں 1600سے زائد افراد جاں بحق ہوئیتھیقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔ اس کے بعد ہر سال مون سون کے دوران صوبے کے مختلف علاقے کسی نہ کسی قدرتی آفت سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق 2022ء کے سیلاب میں خیبر پختونخوا میں سیکڑوں اموات ہوئیں، سیکڑوں مکانات تباہ ہوئے اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ عالمی ماحولیاتی ادارے UNEPاور WWFکی رپورٹس کے مطابق اگر خیبر پختونخوا میں جنگلات کا تحفظ موثر انداز میں نہ کیا گیا تو ہر سال اوسطاً 2.2بلین روپے کا معاشی نقصان ہوتا رہے گا۔ یہ نقصان صرف لکڑی کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ زرعی پیداوار میں کمی، سیاحت کے مواقع میں کمی، زمینی کٹاؤ اور آبی ذخائر پر دباؤ جیسے مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔ جنگلات کی حفاظت کے لیے صرف شجرکاری مہمات کافی نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے جامع حکمت عملی، مضبوط قانونی فریم ورک، سخت احتساب اور ٹیکنالوجی کا موثر استعمال ضروری ہے۔ پہاڑی علاقوں میں ڈرونز اور سیٹلائٹ کی ذریعے نگرانی کی جا سکتی ہے۔ ہر درخت کی ڈیجیٹل میپنگ کی جا سکتی ہے اور غیر قانونی کٹائی کی فوری نشاندہی کر کے کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی کمیونٹیز کو بھی شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ جنگلات کے تحفظ کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ سمجھیں۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو عوامی آگاہی بھی ہے۔ جب تک شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ پہاڑی جنگلات کو اپنی زندگی اور معیشت سے جڑا ہوا نہیں سمجھیں گے تب تک اس کی حفاظت کے لیے اجتماعی کوشش نہیں ہو سکے گی۔ جنگلات صرف مقامی آبادی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے ماحولیاتی توازن کے لیے اہم ہیں۔ ان کا تحفظ بارشوں کے نظام، پانی کے ذخائر، حیاتیاتی تنوع اور فضائی معیار پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر ایک مربوط اور شفاف پالیسی بنائی جائے جس میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ موجودہ جنگلات کے تحفظ کو ترجیح دی جائے۔ محکمہ جنگلات کی استعداد کار کو بہتر بنایا جائے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر قانونی کٹائی کے خلاف سخت کارروائی کا اختیار دیا جائے اور عدالتی نظام میں ایسے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو آنے والے برسوں میں خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی اور معاشی نقصانات میں اضافہ ہو گا، سیلابوں کی شدت بڑھے گی، زرعی پیداوار میں کمی آئے گی اور سیاحت کے شعبے کو نقصان پہنچے گا۔ یہ صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا چیلنج ہے اور اس کا حل اجتماعی کوششوں، پائیدار منصوبہ بندی اور قانون کی سختی سے عملداری میں ہے۔





