3000ارب

3000ارب
محمد مبشر انوار
معاشرہ جرائم سے کبھی بھی پاک نہیں رہا اور ہمیشہ جرائم کے خلاف، ریاستیں برائے کار آتی ہیں تا کہ امن و امان اور عدل و انصاف قائم رہے، عوام الناس کی جان و مال کے علاوہ انہیں معاشرے میں مساوی حقوق میسر رہیں تاہم بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاست کے ارباب اختیار اپنے فرائض منصبی سے پہلو تہی کرتے ہوئے، براہ راست یا بالواسطہ، خود جرائم کا حصہ بن جاتے اور ریاست کو دیمک کر طرح چاٹ جاتے ہیں۔ قانون کی بالادستی ایک خواب بن جاتی ہے اور قانون بنانے والے، نافذ کرنے والے اور عدل و انصاف فراہم کرنے والے بے دست و پا دکھائی دیتے ہیں کہ قانون کی عمل داری میں یہ لوگ براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور عوامی حقوق سلب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کرپشن کو بالعموم جرائم کی بنیاد کو تصور کیا جاتا ہے، جس میں فقط مالی کرپشن کو تمام تر جرائم کی ماں سمجھا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ یہ وہ کرپشن ہے جس تمام معاشرتی برائیاں پنپتی ہیں اور معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے کہ ایسی آمدن کو ’’ لقمہ حرام ‘‘ کہا گیا ہے، جس سے تربیت پانے والا شخص کسی بھی صورت معاشرے میں مثبت طور پر بروئے کار نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ریاستوں نے عوام الناس کی خوشحالی و حقوق کے تحفظ کی خاطر کرپشن کے خلاف سخت ترین قوانین بنا رکھے ہیں، چین جیسے ملک میں مالی کرپشن میں ملوث شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے اور اس کو ماری جانے والی گولی کی قیمت تک اس کے ورثاء سے وصول کی جاتی ہے، اس کے باوجود مستثنیات چین میں بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی مقدمہ بہت معروف رہا ہے کہ جس میں چین کی ایک کمپنی نے ایک پاکستانی منصوبہ میں خطیر رقم منافع دکھائی، لیکن پس پردہ حکومتی شخصیات اس میں ملوث رہیں، چینی حکومت نے اس ٹھیکیدار کو پکڑ لیا، جبکہ پاکستانی حکومت نی اس ٹھیکیدار کے حق میں گواہی دے کر معاملہ رفع دفع کروا دیا، وگرنہ چینی حکومت ایسے ذرائع آمدن پر سخت ترین کارروائی کرنے کے حق میں تھی کہ ایسا کون سا منصوبہ تھا جس میں شرح منافع 70-80%تک ممکن ہو ؟۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ہر شعبہ ہائے زندگی میں باقاعدہ و باضابطہ طور پر شرح منافع مقرر کر رکھی ہیں تاکہ کوئی بھی غیر مناسب طریقے سے، اجارہ داری کی بنیاد پر بھی، بہت زیادہ شرح منافع حاصل کرتے ہوئے، عوام کو نہ لوٹے بلکہ ایک مخصوص حد تک شرح منافع کمائے اور عوام کی قوت خرید کو متاثر نہ کرے۔ اب یہی اصول و ضوابط سعودی عرب میں بھی نافذالعمل ہیں اور کم از کم ایک ماہ میں دوبار حکومت کی جانب سے کرپشن کے تدارک کی خاطر ایک پیغام ہر موبائل صارف کے فون پر عربی و انگریزی زبان میں موصول ہوتا ہے، جس میں عوام سے کہا جاتا ہے، انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی مالی کرپشن کے طلب گاروں کے خلاف حکومت کو معلومات فراہم کریں اور کسی اہلکار کو سرکار کام کے عوض کوئی نذرانہ، ہدیہ یا رشوت نہ دیں۔ یوں سعودی معاشرے میں رشوت کے خلاف وسیع اور موثر پیمانے پر، رشوت ستانی کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور قوانین کا نفاذ بلاامتیاز و بلاتفریق کرتے ہوئے، چند ایک انتہائی بااثر اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے، جو مکمل طور پر صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ و منصفانہ تحقیق پر کی گئی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی شخصیات سے نہ صرف ان کا عہدہ واپس لیا گیا بلکہ لوٹی ہوئی رقم بھی برآمد کی گئی۔
دوسری طرف پاکستانی معاشرہ ہے اور اس کے کردار دیکھ کر متلی ہوتی ہے کہ جہاں جائیں، جسے دیکھیں، ہر طرف نفسا نفسی ہے، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، کوئی بھی محکمہ ہو یا کوئی بھی بڑا نجی ادارہ، ہر جگہ کرپشن کو حق سمجھا جاتا ہے اور بے بس و مجبور عوام کے حقوق کو خوب لوٹا جارہا ہے، جو چند ایک دانے اچھی شہرت کے حامل ہیں، وہ اس نظام میں عضو معطل سے بڑھ کر نہیں اور نہ ہی انہیں نظام کوئی حیثیت و مقام دینے کے لئے تیار ہے۔ گزشتہ چند سال کی کارکردگی کو مد نظر رکھ لیں تو حقائق واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں کہ طاقتوروں و اشرافیہ کے گٹھ جوڑ سے کیا کچھ نہیں کیا جا چکا اور کیا کچھ کرنے کی تمنا نظر نہیں آ رہی ہے؟، سنا ہے کہ مقتدرہ کی جانب سے ایک بار پھر 2018ء کرپٹ عناصر کی فہرستیں مرتب کی جا چکی ہیں اور کچھ وقت جاتا ہے کہ ملک و قوم کو لوٹنے والے نہ صرف پابند سلاسل ہوں گے بلکہ ان سے لوٹا گیا مال مسروقہ بھی برآمد کرایا جائے گا، بلاشبہ یہ اس قوم پر ایک احسان عظیم ہو گا، لیکن ذرا رکئے اور سوچئے کہ کیا یہ کام واقعتا مقتدر حلقوں کا ہی ہے؟ملکی آئین و قانون،جو بدقسمتی سے اس وقت کہیں نظر نہیں آتا کہ اس کی موجودگی اور بروئے کار آنے کی صورت میں مقتدرہ کسی بھی طور کرپٹ عناصر کی فہرستیں مرتب نہ کرتی بلکہ سول انتظامیہ اور وہ حکومتی محکمے، جن کو ریاست ایسی لاقانونیت کے لئے پالتی ہے، وہ بلاامتیاز اپنے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے، ایسے جرائم ہی نہ ہونے دیتے یا کم از کم آزادانہ ایسی اطلاعات پر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ازخود بروئے کار آتے۔ بدقسمتی سے ہوتا اس کے الٹ ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ سول انتظامیہ، جس کا یہ فرض منصبی ہے کہ ایسے وائٹ کالر جرائم پر ازخود متحرک ہو، وہ اس کے برعکس، ایسے جرائم پیشہ اشخاص کی یوں سہولت کاری کرتی دکھائی دیتی ہے کہ انہیں قانونی سقم بتا کر یا قانون کے اندر رہتے ہوئے انہیں راستے بتاتی ہے اور اسی میں اپنے مفادات بھی سیدھے کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سول انتظامیہ بالعموم جبکہ قانون نافذ کرنے والے محکمے بالخصوص عوامی داد رسی کی بجائے، ظالموں، فراڈیوں کے ساتھ مل کر سادہ لوح عوام کو لوٹتی دکھائی دیتی ہے، لوگ اپنی داد رسی کی خاطر ان محکموں کے دھکے کھانے کی بجائے، صبر و شکر کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ جو بچ گیا ہے اس پر قناعت کر لیں وگرنہ جو اہلیت ان قانون نافذ کرنے والے محکموں کی ہے، اس سے ایک دنیا واقف ہے کہ اگر اعتراف جرم کرانے پر آئیں تو پتھروں سے بھی اگلوا لیں اور اگر مفاد نہ ہو تو اعتراف جرم کرنے والے کو بھی ٹھنڈی چھائوں میں رکھنے سے گریز نہ کریں۔
2018ء سے بننے والی فہرستوں ہی کی بات کی جائے تو کیا جنرل باجوہ کا نام بھی اس فہرست ہو گا کہ جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت بنوانے میں ان کا کردار تھا، گو کہ میری رائے اس کے برعکس ہے کہ جس طرح کا رویہ جنرل باجوہ کا انتخابات سے قبل تھا اور جس طرح موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا تھا کہ انتخابات سے قبل ہی کابینہ پر بات چیت ہو چکی تھی مگر ’’ بھائی جان‘‘ نہیں مانے تھے، ان اعترافات کے بعد یہ کہنا تو دور سوچنا بھی محال ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کی حکومت بنوائی ہو گی، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو واضح اکثریت بھی نہیں دلوائی گئی کہ کہیں سنبھالنا مشکل نہ ہو جائے۔ سوال تو پھر وہی قانونی دائرے اور دائرہ اختیار کا ہے کہ کیا واقعی جنرل باجوہ کا دائرہ اختیار تھا کہ وہ خواجہ آصف کی شکست خوردہ نشست پر ان کی کامیابی کا انتظام کرتے، کیا یہ ان کے فرائض منصبی کا تقاضہ تھا، اس کا اعتراف تو دونوں شخصیات کر چکی ہیں کہ کس طرح خواجہ آصف کو ان کی نشست دلوائی گئی تھی، کیا خواجہ آصف کا نام بھی اس فہرست میں ہو گا، اس کا امکان بہرطور موجود ہے کہ ان کے فرنٹ مین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور خواجہ صاحب کی ہاہاکار اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ گھیرا تنگ ہورہا ہے، لیکن دوسرے فریق کی بابت کوئی علم نہیں کہ کیا وہ قانون کی بالادستی قائم کرتے ہوئے، قانونی گرفت میں آئیں گے یا نہیں؟۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم میں رہ جانے والی قانون سازی کو مزید بہتر بنانے کے لئے 27ویں آئینی ترمیم کے چرچے زبان زد عام ہیں، لیکن جس طرح پارلیمان میں دو تہائی اکثریت بنائی جارہی ہے، کیا اس کے پس پردہ کردار بھی اس فہرست کا حصہ ہیں یا نہیں، یا اس کو کرپشن ہی تصور نہیں کیا جارہا؟۔ شنید ہے کہ مقتدرہ اس مرتبہ آہنی ہاتھوں سے، کرپٹ عناصر کے خلاف بروئے کار آنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، جبکہ عوام یہ کہتے ہیںکہ کل تک جن کو کرپٹ کہا گیا، آج وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں، کیا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی یا وہ دودھ کے دھلے ہی رہیں گے؟۔ ویسے عوام کا کیا ہے، عوام تو کچھ بھی کہتے رہتے ہیں، لیکن ان چھ/سات برسوں میں لوٹ مار کا تخمینہ تقریبا 3000ارب کا لگایا گیا ہے، جبکہ پاکستان پر قرض کی رقم ذرائع کے مطابق76000ارب کے قریب ہے، اگر مقتدرہ یہ تین ہزار ارب واگزار کروا لیتی ہے تو میں ذاتی طور پر مقتدرہ کا شکریہ ادا کرنے میں صف اول میں کھڑا ہوں گا، خواہ یہ کارنامہ اس کے دائرہ اختیار میں آئے یا نہ آئے، لیکن اس واگزاری کا کم از کم فائدہ اتنا ہو گا کہ مستقبل میں مزید کرپشن کا امکان کم ہو گا، بشرطیکہ مستقبل کی حکومتیں کسی مصلحت کشی کی بجائے، اس پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کراتی رہیں، حالانکہ 3000ارب صد فیصد واگزار بھی نہیں ہو گا۔





