دس سال قید کا تسلسل

دس سال قید کا تسلسل
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
سانحہ نو مئی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جب ملک کی سب سے بڑی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ملک کی اہم تنصیبات پر حملہ کیا۔ پی ٹی آئی نے اپنے بانی کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کے ردعمل میں ایک ایسے احتجاج کی بنیاد رکھی، جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ اس ناچیز کی زیست میں اس سے قبل کوئی سانحہ پیش نہیں آیا تھا، جس میں کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے اپنے قائد کی گرفتاری کے خلاف اس طرح کا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جیالوں کی فوج ظفر موج تھی، جب ان کی گرفتاری عمل میں لائی تو جس طرح کے رد عمل کی امید کی جا سکتی تھی عوام سڑکوں پر نہیں نکلے اور پھر چشم فلک نے دیکھا انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ملک کے عوام میں شعور بیدار کیا اور ملک لوٹنے والوں کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نہ مٹنے والے نفرت کے نقوش چھوڑے۔ بلاشبہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کا سہرا طاقتور حلقوں کے سر ہے، اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد عمران خان کو غدار کہا جاتا ہے۔ وہ وقت تھا جب وہ انہی حلقوں کی ناک کا بال تھا پھر دیکھتے دیکھتے کسی کی نظر لگ گئی یا وہ ان حلقوں کی خواہشات کے تابع رہنے سے انکاری تھا اور وزارت عظمیٰ کا اہل قرار نہیں دیا گیا۔ بظاہر عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جو آئینی طریقہ اختیار کیا گیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے۔ جس سج دھج سے اسے وزارت عظمیٰ پر بٹھایا گیا تھا اس کے خوابوں میں نہیں تھا وہ اقتدار سے محروم کر دیا جائے گا۔ ہمیں عوام کے جوش و جذبے کا دو ادوار میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ عوام نے جو رسپانس عمران خان کو دیا ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاست دان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں کو قید و بند میں دو سال ہو چکے ہیں، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف مقدمات کے فیصلے سنا رہی ہیں۔ ہم عدالتی فیصلوں پر معترض نہیں آئین اور قانون کے رموز سے جس طرح جج صاحبان آشنا ہوتے ہیں مجھ ایسا ایک عام آدمی قانون کی موشگافیوں سے کوسوں دور ہے۔ مجھے پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے جرم سے کچھ سروکار نہیں البتہ مجھے اس بات پر حریت ہو رہی ہے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں جن پی ٹی آئی رہنمائوں کو سزائیں دے رہی ہیں خواہ وہ فیصل آباد میں ہیں یا صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہیں دس دس سال سزا کے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ضد کا پکا ہے وہ وقفے وقفے سے عوام کو احتجاج کی کال دے دیتا ہے۔5اگست کے بعد اس نے یوم آزادی کو عوام کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ بانی پی ٹی آئی بڑا بھولا ہے اسے بندوں کی پہچان نہیں اس کے بہت سے قریبی لوگ حکومتی حلقوں میں ہیں۔ ہمیں مقدمات درج کرانے اور کرنے والوں پر حریت ہو رہی ہے ایک شخص بیک وقت میں فیصل آباد اور لاہور کے تھانوں میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں نامزد ہے ۔ ہم پھر کہہ رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے جرم کرنے والوں کو جرم کی سزا ضرور ملنی چاہیے عجیب تماشا ہے بیک وقت کوئی دو مختلف شہروں میں جرم کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟، کوئی ملک کے باہر ہو اس کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کر دیا جائے تو کیا عدالت ایسے شخص کو سزا دے گی؟، سانحہ نو مئی کے درج ہونے والے مقدمات کی نوعیت سول مقدمات سے بالکل مختلف ہے فوجداری مقدمات میں ملزم کی جائے وقوعہ پر موجودگی ضروری ہوتی ہے لیکن پاکستان کی عدالتوں سے کچھ بھی بعید ہے بھٹو کو 109میں موت کی سزا سنا دی گئی حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا مقدمہ نہیں جس میں مذکورہ دفعہ میں کسی کو موت کی سزا سنائی گئی ہو اور ملزم کو پھانسی دے دی گئی ہو۔ ہم دس دس سال کے تسلسل کی بات کر رہے تھے ایسے لگتا ہے جج صاحبان نے فیصلوں میں مکمل یک جہتی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ دہشت گردی کے مقدمات میں قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ اور جاءیدادوں ضبط کرنے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پڑھ کر حیرت ہوئی جن پی ٹی آئی رہنمائوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں، ان کی جائیدادوں کی نیلامی کا پراسیس شروع ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں اور ورکرز کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے ہیں ان کے لئے خصوصی جیل کے انتظامات مکمل کئے جا رہے ہیں جہاں جیل عملہ تعینات ہو چکا ہے، لہذا جونہی جیل کا کام مکمل ہو گا ملزمان کو خصوصی جیل میں منتقل کر دیا جائے گا، جس کے بعد ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ عجیب تماشا ہے حکومتی حلقوں کو شکایت ہے بانی پی ٹی آئی مذاکرات کی میز پر آنے سے انکاری ہے۔ اللہ کے بندوں اس کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے جیل میں اس کے ساتھ ملاقاتوں میں تعطل ہے۔ اگر عمران خان کی بہنیں ملاقات کرتی ہیں تو وکلاء کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمیں یاد ہے نواز شریف جن لوگوں سے ملاقات کے خواہش مند ہوتے تھے ان لوگوں کی فہرست جیل حکام کے حوالے کر دی جاتی تھی جس کے بعد نواز شریف سے ان لوگوں کی ملاقات کرا دی جاتی تھی جن کے ناموں پر میاں نواز شریف نے رضامند ظاہر کی ہوتی تھی، لیکن عمران خان کے معاملے میں ایسا نہیں ہورہا ہے۔ جیل حکام کو مجبور ہیں ان سے کوئی شکوہ کیا کرے، پی ٹی آئی کے لوگوں کو خود اس بات کا ادراک ہونا چاہیے بانی سے ملاقات کے راستے میں رکاوٹ کون ہے۔ ماتحت عدلیہ سے پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف فیصلوں کے بعد کسی کو اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایم آر کیانی، جسٹس کیکاوس اور جسٹس رستم ایس سدھوا جیسے جج صاحبان ناپید ہیں، لہذا پی ٹی آئی کے بانی اور رہنمائوں کو صبر سے کام لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔





