Column

یوم آزادی، معرکہ حق، پاکستان ایک برتر نظریہ

یوم آزادی، معرکہ حق، پاکستان ایک برتر نظریہ
طارق خان ترین
پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور نمائندگی کے مطالبے سے ہوا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں جب برصغیر کی سیاسی شکل بدلی تو مسلمانوں کو خدشات لاحق ہوئے کہ اکثریتی ہندو سیاسی عمل میں ان کی جداگانہ شناخت معدوم ہو سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد 1906ء رکھی گئی تاکہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت ہو سکے۔ قائدِ مسلمین محمد علی جناح نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلم سیاسی شعور کو یکجا کیا اور مسلم لیگ کو اس فورس میں تبدیل کیا جو پورے برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ بن گئی۔ علامہ قبال کے نظریات اور 1930ء کے الہ آباد خطاب نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ سیاسی وحدت کی سوچ کو تقویت دی، جبکہ دو قومی نظریہ نے اس بحث کو عملی سمت دی کہ مسلمانوں کو ایک سیاسی وجود درکار ہے جس میں وہ مذہبی، ثقافتی اور سماجی شناخت محفوظ رکھ سکیں۔
تیس اور چالیس کی دہائیوں میں یہ بیداری منظم تحریک کی شکل میں سامنے آئی اور سیاسی کشمکش عروج پر پہنچی۔ قراردادِ لاہور (23مارچ 1940ء ) نے مسلم ترغبت میں خودمختار ریاستوں کے مطالبے کو رسمی حیثیت دی اور مسلم لیگ نے واضح طور پر کہا کہ مسلم اکائیوں کے لیے علیحدہ انتظامی حل ضروری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانوی حکومت کے کمزور پڑنے اور انگریز راج کی واپسی سے پہلے کی حکمتِ عملی میں فرق آیا؛ کیبنٹ میشن کی کوششوں اور مذاکرات کے باوجود جب قابلِ قبول حل نہیں نکلا تو مسلم لیگ نے مضبوط موقف اپنایا۔ 1946ء کی صورتحال میں جب خوف اور اشتعال نے شکل اختیار کی، ڈائریکٹ ایکشن ڈے (16اگست 1946ء ) جیسی واقعات نے تناؤ بڑھایا اور تقسیم کے امکانات کو تقویت دی۔ آخر کار برطانوی حکمرانی نے تقسیم کا راستہ طے کیا، لارڈ مانٹ بیٹن کے منصوبے اور3جون 1947ء کے اعلانات کے بعد تشکیلِ پاکستان کا راستہ کھلا اور بالآخر 14اگست 1947ء کو ایک آزاد مسلم مملکت وجود میں آئی۔
آزادی کے وقت کی اصل قیمت انسانی تھی، ہجرت، ہجوم اور خونی واقعات نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں؛ شہر و دیہات اجڑ گئے اور بے شمار خاندان بے گھر ہو گئے۔ نئے ملک کو بنیادی ادارے قائم کرنے، پناہ گزینوں کا سامان کرنے اور معاشی و انتظامی بحرانوں سے نبرد آزما ہونا پڑا، مگر اسی میں قوم نے اپنی بقا اور خود اعتمادی کا عزم بھی دکھایا۔ آزادی کی یہ کہانی صرف رہنماں کی جدوجہد نہیں بلکہ عام آدمی، کسان، طالب علم، خواتین اور ان تمام افراد کی قربانیوں کا نتیجہ تھی جنہوں نے اندھے امتحانات میں صبر و استقامت سے کام لیا۔ اس جدوجہد کی میراث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قومی بقا کے لیے اتحاد، نظم، انصاف اور قربانی لازمی ہیں، وہی اصول آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا باعث ہیں تاکہ ہم اپنے وطن کو وہ مقام دے سکیں جس کے لیے ہماری تحریک نے جدوجہد کی تھی۔
معرکہ حق:
22 اپریل 2025ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26سیاحوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر بھارت کے ماضی کے خودساختہ ڈراموں کو زندہ کر دیا۔ ابھی لاشیں ٹھنڈی نہ ہوئی تھیں کہ دہلی نے حسب روایت بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر دھر لیا۔ بھارتی میڈیا نے شور و غوغا برپا کر کے ایک بار پھر مظلومیت کا نقاب اوڑھ لیا، مگر دنیا اب ان جھوٹے بیانیوں سے واقف ہو چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس (2007)، ممبئی حملے (2008)، اُری حملہ (2016)اور پلوامہ حملہ (2019)جیسے واقعات کو سیاسی فائدے، انتخابی مفادات اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بھارتی سیکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹیں، عدالتی بیانات اور صحافیوں کی تحقیقات ان حملوں کو فالز فلیگ آپریشنز قرار دے چکی ہیں۔ مثال کے طور پر، سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں بھارتی فوجی کرنل پروہت اور سوامی آسیم آنند جیسے انتہاپسند ملوث نکلے، جنہوں نے بعد میں عدالت میں اعترافِ جرم بھی کیا۔ ممبئی حملے کے بعد بھی بھارتی پولیس افسر ستیِش ورما نے اعتراف کیا کہ بعض دہشت گرد کارروائیاں حکومتی منظوری سے کی گئیں۔ پلوامہ واقعے پر بھارتی اینکرز کے لیکڈ میسجز سے واضح ہو گیا کہ یہ سب سیاسی فائدے کے لیے منظم کیا گیا تھا۔
اسی تسلسل میں پہلگام حملے کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حملہ بھی ایک پلاننگ کا حصہ تھا، عالمی برادری کی ہمدردیاں سمیٹنے، پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لانے اور بھارت کے ہندوتوا ایجنڈے کو اندرونِ ملک تقویت دینے کے لیے۔ پاکستان نے اس حملے پر نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی، جس سے پاکستان کا سفارتی قد بلند ہوا۔ 29اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ انڈین آرمی کے ایک حاضر سروس میجر اور پاکستان میں موجود دہشت گرد کے درمیان ہونے والی آڈیو لیکس نے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا۔ بلوچستان، کراچی اور لاہور میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی پشت پناہی بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا زندہ ثبوت بن گئی۔
مگر بھارت کا اصل چہرہ اس وقت سامنے آیا جب 7مئی کی رات اُس نے پاکستان کے شہری علاقوں پر میزائل حملے کیے ۔ یہ حملے مسجدوں، مدارس، عورتوں اور بچوں پر کیے گئے۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان شاید خاموشی اختیار کرے گا، لیکن وہ بھول گیا کہ 27فروری 2019ء کا پاکستان اب مزید بدل چکا ہے۔ پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی نہ صرف فوری تھی بلکہ تباہ کن بھی۔ دشمن کے پانچ رافیل، ایک مگ، ایک ایس یو 30طیارے اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹر تباہ کیے گئے ۔ بھارتی چیک پوسٹوں پر پاکستانی افواج کا دبائو اتنا شدید تھا کہ وہ سفید پرچم لہرانے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے اسرائیلی ساختہ خودکش ڈرونز کا استعمال کیا، لیکن پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے انہیں بھی راکھ کا ڈھیر بناکر رکھ دیا۔ 10مئی کو جب بھارت نے دوبارہ میزائل حملے کیے، تو پاکستان نے ’’ آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا آغاز کیا۔ چند ہی گھنٹوں میں بھارت کے 20بڑے فضائی اڈے مکمل طور پر مفلوج ہو گئے۔ بھارتی قیادت، خاص طور پر نریندر مودی، سرنڈر موڈ میں چلی گئی۔ امریکا، جو پہلے کہتا تھا کہ ’’ یہ ہماری جنگ نہیں‘‘ ، اچانک بھارت کی منت ترلوں پر بھارت کی سلامتی کے لیے میدان میں کود پڑا۔ لیکن پاکستان نے دنیا پر واضح کر دیا کہ ہماری سرزمین، ہماری خودمختاری، اور ہمارے نظریات پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت بھارت کو معیشت میں بدحال، سیاسی عدم استحکام اور سفارتی محاذ پر تنہائیوں اور رسوائیوں سے دوچار ہوچکا۔ جبکہ پاکستان ایک برتر ملک، ایک برتر نظریہ، اور ایک عالمی فیصلہ ساز کے طور پر ابھر رہا ہے۔
بھارت سے جب کچھ نا ہوا تو اپنوں کو ہی انہوں اپنے نشانے پر رکھ دیا۔ بھارت میں مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ سکھوں کو بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنایا ہے، جس کا تازہ ثبوت کرتارپور راہداری کی بندش ہے۔ پاکستان کی طرف سے سکھوں کے لیے مذہبی آزادی اور سہولت کی فراہمی، خصوصاً کرتارپور راہداری کو جنگی حالات میں بھی کھلا رکھنا، مذہبی احترام کا مظہر ہے، پاکستان نے کبھی بھی عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی پاکستان نے کرتارپور راہداری کو بند نہیں کیا۔ جب کہ بھارت نے اس راہداری کو بند کرکے سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔ یہ اقدام دراصل سکھوں کو اپنے مذہب سے جُڑنی کی سزا دینے کی کوشش ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی ریاست اقلیتوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک برت رہی ہے۔ سکھوں کے ساتھ ہونے والا یہ رویہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بھارت کے داخلی تضادات کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جہاں مودی سرکار کی ہندو انتہاپسندی پورے خطے کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
یہ محض ایک فوجی جنگ نہیں تھی۔ یہ ایک نظریاتی معرکہ تھا، جس میں جھوٹ کے مقابلے میں سچ، ظلم کے مقابلے میں عدل، اور باطل کے مقابلے میں ایمان نے فتح پائی۔ بھارت نے عورتوں، بچوں، مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا، یہ محض جغرافیائی حملہ نہیں بلکہ تہذیب اور عقائد پر حملہ تھا۔ لیکن جس رب نے بدر میں چند صحابہ کو ہزاروں پر غالب کیا، وہی رب آج پاکستان کے ساتھ تھا۔ چین، ترکی، آذربائیجان، سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، قطر، اور کئی دیگر مسلم ممالک نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اتحاد سفارتی نہیں بلکہ ایمانی، نظریاتی اور برادرانہ تھا۔ پاکستانی عوام، فوج، سیاستدان، میڈیا، سب ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو گئے: دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہے۔ آج کا پاکستان صرف ایک ریاست نہیں، ایک نظریہ ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جو دشمن کو اُس کی زبان میں جواب دینا جانتا ہے۔ آج کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں پھر سے گونج رہا ہے، اور بھارت کا جھوٹ دنیا کے سامنے ننگا ہو چکا ہے۔ پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ جب بھی کوئی طاقت ہمارے عقیدے، غیرت، یا سرزمین کو للکارے گی، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم جواب دیں گے، ایسا جواب جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بھارت جب سامنے سے جنگ نہ لڑ سکا تو انہوں اپنے پراکسیز کو سرگرم عمل کرنا شروع کر دیا۔ خضدار میں سکول کے بچوں کو نشانہ بنا کر 10بچوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ فتنہ الہندوستان نے عام مسافروں کو بسوں سے اتار کر شہید کر دیا۔ یہ جنگ ہے جو بھارت سامنے سے لڑ تو نہیں سکتا مگر پیٹ پیچھے دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاریاں کرا رہا ہے۔ پچھلے چار ہفتے میں ہمارے چار بہادر میجرز نے وطنِ عزیز کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جن کا ذکر قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔ میجر سید رب نواز طارق 16جولائی 2025ء کو ضلع آواران میں ایک خفیہ آپریشن کے دوران جامِ شہادت نوش فرمایا۔ میجر محمد انور کاکڑ، میرے انتہائی پیارے دوست تھے، انتہائی با اخلاق با صلاحیت اور مخص انسان تھے۔ 19جولائی 2025ء کو کوئٹہ میں مقناطیسی آئی ای ڈی حملے میں ظالم فتنہ الہندوستان نے شہید کر دیا۔ میجر زیّاد سلیم اوال، 23جولائی 2025ء کو مستونگ میں ایک انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ میجر محمد رضوان طاہر 5/6اگست 2025ء کی رات مستونگ میں ایک آئی ای ڈی دھماکے میں اپنی جان قربان کر گئے۔
ہر ایک شہید نے نہ صرف اپنی ٹیم کی قیادت کی بلکہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر قوم کے دفاع کے لیے لڑا۔ اہلِ خانہ کو فوجی اعزازات اور ریاستی تعاون فراہم کیا جا چکا ہے، اور یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ اس تعاون کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے۔ ان قربانیوں کی خبریں اور بیانات فوجی میڈیا اور قومی اخبارات میں شائع ہوئے، لیکن اصل خراجِ عقیدت یہ ہے کہ ہم ان کی یاد کو عملی اقدامات کے ذریعے زندہ رکھیں۔ ہمیں چاہیے کہ قومی سطح پر ان شہداء کے نام پر تعلیمی ادارے، اسکالرشپس، اور رفاہی منصوبے قائم کیے جائیں تاکہ ان کا نام آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی روشنی کا چراغ بن کر رہے۔ یہ قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ آزادی اور امن کی قیمت بہت بلند ہوتی ہے، اور اس قیمت کو ادا کرنے والے یہ بہادر جوان ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ قوم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہماری افواج پاکستان، انٹیلیجنس ایجنسیاں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایف سی، پولیس، لیویز کے دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
بلوچستان میں ترقی سے خائف بھارت نہیں چاہتا ہے کہ بلوچستان ترقی کر جائے، جس پاکستان ترقی کریگا۔ مگر ترقی کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کا عمل حالیہ برسوں میں سی پیک (CPEC)کے منصوبوں کی بدولت نمایاں رفتار پکڑ چکا ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر و توسیع، ایکسپریس ویز، اور توانائی کے منصوبے نہ صرف صوبے کو ملکی اور بین الاقوامی تجارت کا مرکز بنا رہے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ گوادر فری زون میں صنعتی زونز کا قیام، پانی اور بجلی کی فراہمی، اور جدید مواصلاتی نظام کی تعمیر سے صوبے کی معاشی تصویر تیزی سے بدل رہی ہے۔ ان منصوبوں سے بلوچستان کی اسٹریٹجک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، جو چین، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کی معدنی ترقی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سونے اور تانبے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں شمار ہونے والے اس منصوبے پر بین الاقوامی سرمایہ کاری سے نہ صرف صوبے کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ کان کنی، معدنی پراسیسنگ، اور متعلقہ صنعتوں میں ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی اور تربیت سے مقامی افرادی قوت کی مہارت میں اضافہ ہوگا، جبکہ اس کی آمدنی صوبے کی بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت، اور پینے کے پانی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکے گی۔ ریکوڈک اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے بلوچستان کو ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل کرنے کی بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔
یومِ آزادی دراصل اس نعمت کا دن ہے جس کے لیے ہمارے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں، لہٰذا اس موقع پر ہمیں شکر بجا لانا چاہیے کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا جہاں ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ آزادی کی قدر صرف نعروں اور جھنڈوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اسے عملی طور پر اپنے کردار، محنت اور دیانتداری سے ثابت کرنا چاہیے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان صرف ایک جغرافیہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے جس کی حفاظت اور ترقی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔
پاکستان کی اصل طاقت اس کے عوام کے اتحاد اور بھائی چارے میں ہے۔ یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں اپنے تمام سیاسی، لسانی، اور علاقائی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے۔ باہمی احترام، تعاون، اور برداشت کے ذریعے ہم ایک ایسی قوم بن سکتے ہیں جو دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ اپنا مقام بنائے۔ یہی جذبہ ہمیں دہشت گردی، انتہا پسندی، اور نفرت انگیزی سے بچاتا ہے اور ہمیں ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔
آخر میں، یومِ آزادی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی ہماری اجتماعی کوششوں اور قربانیوں سے وابستہ ہی۔ ہمیں چاہیے کہ اس موقع کو صرف ایک دن کی خوشی نہ سمجھیں بلکہ پورے سال اپنی سوچ، عمل اور نیت میں اس کی روح کو زندہ رکھیں۔ اگر ہم اپنے حصے کا چراغ جلائیں اور اپنی صلاحیتیں ملک کی خدمت میں لگائیں تو کوئی طاقت ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتی، اور ہم آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن پاکستان وراثت میں دے سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button