مخدو م الاولیاء حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری

مخدو م الاولیاء حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری
ضیاء الحق سرحدی
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
سر زمین پاکستان بالخصوص اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت اور با مراد ہے کہ یہاں اولیائے کرام، بزر گان دین ، علماء کرام ، دانشوران قوم اور اللہ تبارک تعالیٰ کے مقبول و منظور بندوں کو استراحت نصیب ہوئی جنہوں نے اپنی خانقاہوں ، آستانوں اور مراکز میں بیٹھ کر اور اس کے رسولؐ کے احکامات اور ارشادات کی روشنی میں تبلیغ دین اور خلق خدا کی خدمت و بھلائی کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا اور اس خطہ بینظیر و روشن ضمیر میں نور اسلام کی روشنی سے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی طور پر فیضیاب کیا انہی کے فیوض و بر کات اور افکار و مجاہدات سے آج بھی تشنگان حق، ایمان و یقین کی دولت و سر فرازی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان اولیاء اللہ کے مزارات آج بھی مرکز انوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رب کریم قرآن پاک میں اولیاء اللہ کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ:’’ خبردار بے شک اللہ کے دوست وہ ہیں جن پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن و ملال ، وہ ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور بڑے پرہیز گار ہوتے ہیں‘‘۔
حدیث قدسی میں ایک جگہ اس بات کی ان الفاظ سے وضاحت کی گئی ہے۔ ترجمہ : ’’ جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے ‘‘۔
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کاموں پر لگا دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنا کسی طرح جائز نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جن و انس میں جاری و ساری ہے اور انسانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کو مخصوص اختیارات تفویض کر کے مقرر کئے جاتے ہیں۔
انہی اولیاء کرام ؒ میں سے عظیم المرتبت شخصیت جن کی عظمت و شہر ت کا آفتاب آج بھی نصف النہار پر ہے وہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒہیں ۔ آپ ؒکا نام حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ہے، آپؒ حسنی سید ہیں، آپؒ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے، آپؒ کی ولادت چارسو ہجری میں ہوئی، آپؒ نے ساری زندگی احکام الٰہی کی پابندی اور عشق رسولؐ کی سر شاری و بے قراری میں گزاری اور شریعت و طریقت کے آسمان محبت پر مثل آفتاب و ماہتاب بن کر ابھرے۔ آپؒ کی رعنائی اور روشنائی سے نہ صرف اس خطہ پاکستان بلکہ پورے ہند کے طول و عرض میں طالبان روحانیت نے سچائی و آگاہی کی منزل پائی آج بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ داتا کی نگری جاتے ہیں۔ آپؒ کے فیض اور عنایات کا چشمہ بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے تمام انسانوں کے لئے جاری ہے، جس سے تمام تشنگان دین و دنیا اور اہل معرفت سیراب ہوتے ہیں۔
خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اجمیر پہنچے تو اجمیر شریف کی پہچان بن گئے، اجودھن سے حضرت فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پاک پتن شریف پہنچے تو اس غیر معروف علاقہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی تو یہ علاقہ اجودھن سے پاک پتن شریف کے نام میں تبدیل ہو گیا اور جب ہجویر سے داتا گنج بخش سر کار ؒلاہور پہنچے تو لاہور کی پہچان بن گئے اور لوگوں کی زبان پر لاہور کا دوسرا نام ’’ داتا کی نگری ‘‘ ہو گیا۔ آپؒ کی ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ محلہ’’ جلابی‘‘ ،اور کچھ عرصہ محلہ ’’ ہجویر‘‘ میں گزرا۔
آپ ؒ کو خواب میں اپنے مرشد کامل نے حکم دیا کہ اے سید علی ہجویری لاہور آپؒ کے سپرد کیا گیا ہے، لہذا فوراً لاہور چلے جائو، لاہور آمد کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپؒ 431ھ میں غزنی سے لاہور تشریف لائے، ان دنوں غزنی میں سلطان مسعود غزنوی حکمران تھا، حضرت داتا علی ہجویریؒ نے لاہور تشریف لا کر سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی، جب مسجد کی تعمیر سے فراغت پائی تو علماء نے اس مسجد کے قبلے پر اعتراض کیا۔ آپؒ نے تمام علماء کو بلایا اور خود امام بن کر اس میں نماز پڑھائی، نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے، اب دیکھو کہ قبلہ کس طرف ہے، جب انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو یک بارگی سب کو قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا۔ اس طرح قبلہ کو سیدھے رخ پر دیکھ کر سب معترضین علماء نادم ہوئے اور پھر آپؒ سے معذرت چاہی، یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپؒ سے ظاہر ہوئی اور اس کرامت نے فوراً ہی سارے شہر میں آپؒ کو مشہور کر دیا اور رفتہ رفتہ تمام پاک و ہند میں آپؒ قطب الاقطاب مشہور ہو گئے۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ کا خاندان افغانستان کے شہر غزنی میں اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز تھا، آپؒ کی والدہ بڑی عابدہ ،زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں، آپؒ کے ماموں تاج الاولیاء کے معزز لقب سے مشہور تھے، آپؒ کے والد عثمان بن علی بہت نیک اور سادات کرام میں سے تھے، ایسے نیک گھرانے میں حضرت داتا گنج بخش ؒ 400ھ میں پیدا ہوئے، آپؒ کا نام گرامی ’’ علی ‘‘، کنیت ’’ ابوالحسن ‘‘ اور لقب ’’داتا گنج بخش ‘‘ ہے، اس لقب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بار خواجہ غریب نواز ؒ لاہور میں داتا صاحب کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے اور ایک حجرے میں 40دن تک مصروف عبادت رہے، اس عرصے میں داتا صاحب نے جو فیوض و برکات کی بارش آپؒ پر کی، اس کا اندازہ غریب نوازؒ ہی لگا سکتے ہیں۔ فیوض و برکات کی بارش ہونے پر خواجہ غریب نواز اجمیریؒ نے وجد میں آکر آپؒ کی شان میں فارسی کا وہ شعر کہا جو اس مضمون کی پیشانی کا جھومر ہے اس سے گنج بخش کا لقب مشہور ہوا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاراں پیر کامل کاملاں را راہنما
حضرت سید علی ہجویریؒ کی تصانیف بے شمار ہیں، چونکہ آپؒ علم و فضل میں کمال درجہ رکھتے تھے، اس لئے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں، ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں، منہاج العابدین، اسرار الخارق و اللمعات، بحرالقلوب، شرح کلام منصور، ایمان، دیوان، کتاب فنا و بقائ، الرعایۃ الحقوق اللہ تعالیٰ، کشف الاسرار اور کشف المحجوب آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ نے تو ان کی آخری کتاب ’’ کشف المحجوب‘‘ کے بارے میں یہاں تک فر ما دیا تھا کہ ’’ جس کا کوئی مرشد نہ ہو اسے اس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا ‘‘۔ اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے، غیرمسلموں میں پروفیسر نکلس اور پروفیسر ژو کو فسکی نے داتا گنج بخش ؒ کی اس کتاب پر کام کیا ہے ۔
آپؒ کا سلسلہ طریقت کچھ اس طرح ہے : علی ہجویری بن عثمان ؒ آ پ کے شیخ ابو الفضل ؒ بن حسن ختلی ، ان کے شیخ کا نام ابو بکر شبلی ؒ، جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے مرید تھے ، وہ مرید تھے شیخ سری مقطی کے ، ان کی بیعت حضرت معروف کرخی ؒ سے تھی وہ حضرت دائود طائی ؒ کے خلیفہ تھے و ہ حبیب عجمی ؒ کے مرید و خلیفہ تھے وہ خلیفہ تھے حضرت حسن بصری ؒ کے، جن کو طریقت کا فیضان حضرت علی ؒ سے حاصل تھا اور حضرت علی ؒ کو رسولؐ اللہ سے فیض حاصل ہوا تھا اس طرح آپؒ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت دونوں آگے جا کر نبی کریمؐ سے مل جاتے ہیں۔
آپؒ شب و روز اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مصروف رہے، حتیٰ کہ جب آپؒ کے پیر و مرشد کا وصال ہوا تو ان کا مبارک سر حضرت سید علی ہجویری ؒ کی گود میں تھا، آپؒ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مقلد تھے اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپؒ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں صرف اتنا پتہ ملتا ہے کہ آپؒ نے شادی کی لیکن کچھ ہی مدت بعد بیوی سے علیحدگی ہو گئی، اس کے بعد جب تک آپؒ زندہ رہے، آپؒ نے دوسری شادی نہیں کی۔ پیر و مرشد کے انتقال کے بعد بہ اختلاف روایت 432ھ میں آپ نے اپنے وطن غزنی کو خیر باد کہا اور تبلیغ اسلام کا شوق آپؒ کو کشاں کشاں بت کدہ ہند میں لے آیا، پھر آپؒ سر زمین لاہور پہنچے اور شب و روز اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔
مخدوم الاولیاء ، حضرت داتا گنج بخشؒ نے 465ھ صفر المظفر کی 19تاریخ کووصال فر ما یا اور لاہور میں آسودہ خاک ہوئے، جہاں ہر سال آپ کا عرس بڑی شان و شوکت سے منا یا جاتا ہے۔ آپ ؒ کے مزار پر ہر زمانہ میں اولیائے کاملین علمائے کرام اور وقت کے بڑے بڑے حکمران حاضر ہو کر آپ ؒ کے جود و کرم سے جھولیاں بھرتے رہے ہیں۔ داتا گنج بخش ؒ کی ذات انور کی دلکشی کا یہ عالم ہے کہ رات دن طالبان حق کا آپ کے مزار پر تانتا بندھا رہتا ہے، گرمی ہو یا سردی بارش ہو یا دھوپ دن ہو یا رات ، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جبکہ بندگان خدا کا ہجوم اللہ تعالیٰ کے اس محبوب اور برگزیدہ بندے کے روضے پر حاضری کا شرف حاصل نہ کر رہا ہو۔ آپؒ کے فیض کے یہ چشمے روز قیامت تک جاری و ساری رہیں گے اور تشنگان معرفت و طریقت اور طالبان دین و دنیا سیراب ہوتے رہیں گے۔ آپؒ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر ا لدولہ نے تعمیر کرایا اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ (936ھ بمطابق 1555ء تا 1014ھ 1605ء ) نے بنوائی۔ ایک غیر مسلم برہمن سادھو ( شیخ ہندیؒ) نے حضرت داتاؒ سے روحانی مقابلے کی شکست پر اور ایمان و عرفان کی بے کراں دولت ملنے پر اپنے مرشد حضرت سید علی ہجویری ؒ کو داتا کہہ کر پکارا، تب سے آپؒ کا لقب داتا ہوا، جیسا کہ آج بھی مسلمان اولیاء اللہ کو صفاتی ناموں سے یاد کرتے ہیں، مثلاً دستگیر ، خواجہ، غریب نواز، غریب پرور، سخی سرور، سائیں اور سرکار وغیرہ جبکہ دوسری روایت کی مطابق خواجہ معین الدین اجمیری ؒ (1239 ئ) اور خواجہ فرید الدین گنج شکر ؒ نے کسب فیض کے لئے آپؒ کے مزار پر چلہ کشی کی ۔
آپؒ کا مزار روز اول ہی سے مرکز تجلیات ہے بادشاہ و گدا، سلاطین و مشاہیر ، مشائخ وصوفیا، عرض ہر طبقہ یہاں سے فیض یاب ہونے آتا ہے، سب سے پہلے جو بادشاہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوا وہ سلطان ابراہیم غزنوی تھا وہ 472ء میں ہندوستان کی جانب متوجہ ہوا، جب لاہور پہنچا تو حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضر ہوا اور حکم دیا کہ جس قدر بلند ہستی ہیں اسی قدر عظیم الشان مزار تعمیر کیا جائے۔ اس وقت حضرت داتا گنج بخشؒ کے وصال کو صرف آٹھ سال گزرے تھے۔ سلطان ابراہیم غزنوی کے بعد اس کا بیٹا علائوالدولہ مسعود 492ء میں تخت نشین ہوا، اس کو خود ہندوستان آنے کا موقع نہ ملا۔ مگر اس کے وزراء حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضر ہو کر اپنے سلطان کی طرف سے عقیدت کے نذرانے پیش کرتے رہے۔508ء میں علائوالدولہ مسعود کے بعد اس کا بیٹا سلطان الدولہ ارسلان شاہ تخت نشین ہوا۔ اور غزنوی حکمرانوں کی اس دربار میں حاضری کا سلسلہ جاری رہا۔ ارسلان شاہ کے بعد سلطان معزالدولہ بہرام شاہ بن مسعود تخت نشین ہوا اور اس نے511ء میں سیاسی مخالفین کی بیخ کنی کے بعد لاہور میں حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر حاضر ہو کر سلام پیش کیا۔ غزنوی سلطنت کے آخری امراء خسر و شاہ بھی اس مزار مقدس پر حاضر ہونے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔
ہندوستان پر حکومت کرنے والے تمام معروف سلاطین بالخصوص غوری، خاندان غلاماں، سادات، لودھی اور مغل حکمران جو بھی لاہور آیا اس آستانے پر حاضری کو اپنی سعادت اور اپنے اقتدار اور سلطنت کیلئے استحکام کی ضمانت سمجھا، بالخصوص سلطان محمد غوری، سلطان قطب الدین ایبک، سلطان شمس الدین التمش اور سلطان غیاث الدین بلبن بطور خاص آپ کے مرقد پر حاضر ہوئے۔ دارشکوہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار پر حاضر ہوتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں لاہور کی عمارتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تاہم وہ اس مزار کا بہت زیادہ ادب اور خیال کرتا تھا۔ نواب میر مومن خاں اس دربار سے بہت زیادہ عقیدت رکھتا تھا اور اپنی وصیت کے مطابق مر کر بھی یہیں دفن ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں حکمرانی کا اعزاز پانے والے اگرچہ اکثر صدور، وزرائے اعظم اور بالخصوص پنجاب کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ یہاں حاضر ہو کر پھولوں کی چادر اور نذرانے پیش کرتے رہے، تاہم ایوب خان کے دور میں اس حوالے سے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو دسمبر1974ء کو داتا دربار کے داخلی دروازے پر سونے کا دروازہ نصب کر کے اپنی عقیدت کو یادگار حیثیت بخش گئے۔ آپؒ زندگی میں علم و عرفان طریقت و شریعت ادب و ولایت کی دولت لٹاتے رہے اور غیر مسلموں کو ایمان اور دین مبین سے روشناس کرتے رہے۔ آج بھی آپ کے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور فیوض و برکات کا یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔





