
جگائے گا کون؟
مودی کی ذلالت کا سکور مکمل
تحریر: سی ایم رضوان
بھارت میں پچھلے انتخابات میں نریندر مودی کی جیت پر بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ثبوتوں کے ساتھ سوال اٹھا دیا ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے ساتھ مل کر عام انتخابات میں ووٹ چرائے اور عوام سے اُن کا حق چھین لیا۔ انہوں نے ثبوت دیا کہ ایک ایک شہری ملک کے تین تین صوبوں میں بطور ووٹر درج ہے۔ دوسرا یہ کہ فیک ووٹ بہت زیادہ بنانے کے لئے ایسے ایڈریس بھی شامل کئے گئے ہیں جن کے ہاس نمبر زیرو ہیں۔ راہول گاندھی نے سوال اٹھایا ہے کہ دنیا بھر میں ایسا کہیں ہوتا ہے کہ ہائوس نمبر زیرو ہو۔ راہول گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ مودی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مل کر الیکشن چرایا اور بھارت کی جمہوری روایات کو سخت نقصان پہنچایا ہی۔ کانگریس رہنما اس حوالے سے دستاویزی ثبوت سامنے لے آئے اور کہا کہ کہیں ڈپلیکیٹ ووٹر آئی ڈیز بنائی گئیں تو کچھ حلقوں میں مکانوں کے جعلی ایڈرس بنائے گئے۔ کانگریس رہنما نے الزام عائد کیا کہ جعلی تصاویر کا بھی استعمال کیا گیا، مجموعی طور پر کم سے کم 100سے زیادہ نشستوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جعل سازی نہ ہوتی تو مودی آج بھارت کے وزیراعظم نہ ہوتے۔ پچھلے انتخابات میں بی جے پی، مودی اور ان کے ساتھیوں نے آئین پر حملہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن جو کر رہا ہے وہ غداری ہے، ہم کارروائی کریں گے، یہ بچ نہیں سکیں گے۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے مزید ٹیرف عائد کرنے ہر راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندرا مودی کی پُراسرار خاموشی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مودی کی خاموشی کی ایک وجہ اڈانی کیخلاف امریکی تحقیقات ہیں۔ راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت پر 50فیصد ٹیرف عائد کرنا معاشی بلیک میلنگ ہے، یہ ایک غیر منصفانہ تجارتی معاہدے میں بھارت کو دبا میں لانے کی کوشش ہے جو کہ مودی کی کمزور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ بہتر ہے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی کمزوری کو بھارتی عوام کے مفادات پر غالب نہ آنے دیں۔ ان سوالات کے ساتھ ہی مودی کے اپنے ملک بھارت میں مودی کی بے عزتی کا سکور مکمل ہو گیا ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کی ہزیمت، بزدلی، جھوٹے دعوں اور عسکری کمزوریوں کا سکور دس مئی کو ہی مکمل ہو گیا تھا جب پاکستان نے بھارت کے خلاف معرکہ حق میں اس کے بیان کردہ طاقتور اور ناقابل تسخیر پانچ جہازوں کو تباہ کر کے بھارت پر اپنی عسکری اور فضائی برتری کی دھاک بٹھا دی تھی۔ شروع میں تو بھارتی مودی میڈیا جھوٹے دعوئوں کی بناء پر اپنی اس ہزیمت زدہ ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا مگر بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے ثبوتوں کے ساتھ تحقیقی رپورٹ نشر کر کے اس کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یوں اب عالمی اور بھارتی سطح پر مودی کی بے عزتی کا باب مکمل ہو گیا ہے۔
ماہرِ بشریات مارسیل ڈینیسی کے مطابق، ایک بار جب لوگ جھوٹ پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اپنے عقائد سے متصادم شواہد سامنے آنے کے باوجود ان کے ذہن تبدیل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ مارسیل ڈینیسی نے لکھا، ’’ وہ متضاد معلومات کو توڑ مروڑ دیتے ہیں تاکہ اسے اپنے عقائد کے مطابق بنا سکیں‘‘ ۔ اس حوالے سے تحقیق بتاتی ہے کہ ایک بار جب جھوٹ کو تسلیم کر لیا جائے تو مستقبل میں دماغ مزید جھوٹ قبول کرنے کا عادی بن جاتا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف یہ قبول کرنا ہوگا کہ بہت سے لوگ صرف وہی مانیں گے جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں، چاہے حقیقت کچھ بھی ہو؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی بھی ان کی رہائی کے حوالے سے ’’ معلومات‘‘ میں ردوبدل کرتے رہتے ہیں اور وہ گزشتہ دو سال سے یہی کر رہے ہیں۔ وہ ان کی فاتحانہ رہائی کی مسلسل تاریخیں بتاتے رہتے ہیں لیکن ان کی خبریں کبھی بھی درست ثابت نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود ان کے حامی نئی خبروں پر یقین کرتے رہتے ہیں اور نئی تاریخوں کے اشتراک کا سلسلہ جاری رکھنے اور پھر رہائی کا انتظار کرنے سے باز نہیں آتے اور جب وہ تاریخ بھی کسی پیش رفت کے بغیر گزر جاتی ہے تو اس غلط معلومات کے بعد ایک نئی معلومات سامنے آتی ہے۔ جس میں قیاس کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت عمران خان کو رہا کرنے کے لئے بے چین ہیں لیکن وہ خود سامنے آنے سے انکاری ہیں کیونکہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کوئی گھٹیا ’’ ڈیل‘‘ نہیں کرنا چاہتے۔
اسی طرح ایک مثال مودی میڈیا کی ہے کہ اسی سال 9مئی کی شام کو کروڑوں بھارتی شہری اپنی ٹی وی اسکرینز کے سامنے بیٹھ کر اور سوشل میڈیا پر پُرجوش انداز میں اپنے ٹی وی اینکرز کے لئے تالیاں بجاتے رہے جو انہیں بتا رہے تھے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ بہ بظاہر پاکستان میں ایک شہر کے بعد ایک دوسرے شہر پر بھارتی مسلح افواج کے قبضہ کی اطلاعات شیئر کر رہی تھیں۔ مودی میڈیا کے مطابق پاکستان کا ایک پورا صوبہ اپنی آزادی کا اعلان کر کے پاکستان سے الگ ہو چکا تھا۔ حکومت گر چکی تھی اور فوجی سربراہ کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ یقیناً یہ سب ایک دھوکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایک بھی بھارتی شہری ایسا تھا جس نے دیگر خبررساں ذرائع کو دیکھنے کی زحمت کی ہو؟ ایک ایٹمی ملک کے میڈیا آئوٹ لیٹس میں جھوٹی خبروں کا طوفان برپا تھا جس میں محض خواب دیکھنے کی حد تک دوسرے ایٹمی ملک کو شکست دی جا رہی تھی۔ تو کیا بھارت میں اس حوالے سے پُرجوش کسی بھی شخص نے بی بی سی، سی این این، رائٹرز یا الجزیرہ کو چیک کرنے کا نہیں سوچا جن میں سے تمام کے پاکستان میں رپورٹرز موجود ہیں؟ یہاں تک کہ جب غیر جانبدار میڈیا میں یہ شواہد سامنے آنے لگے کہ پاک فضائیہ نے کم از کم 5بھارتی طیارے مار گرائے ہیں اور بھارت کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے تو بھارتی میڈیا نے اسے ’’ بھاری‘‘ کے بجائے ’’ معمولی نقصان‘‘ کے طور پر بیان کیا۔ حیران کن بات ہے کہ ان لوگوں میں سے کسی نے بھی معافی نہیں مانگی جو ساری رات ٹی وی پر چیختے رہے اور دلیرانہ انداز میں جھوٹی ’’ خبریں‘‘ بتاتے رہے جو ان کے نام نہاد رپورٹرز نے شیئر کیں۔
مذکورہ بالا دو مثالوں میں کافی مماثل عوامل موجود ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں کا اس معلومات پر یقین کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جو ان کی سوچ کی تائید کرتی ہوں کیونکہ ان کے خیالات کے مطابق بنائی گئیں غلط معلومات پر سوال کرنے یا اسے مسترد کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک محرک استدلال کام کر رہا ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کے عقائد اور خواہشات اس بات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ وہ معلومات کو کس انداز میں لیتے ہیں جس سے وہ جھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے مقاصد یا جذبات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ آسی طرح اگر عمران خان کی رہائی اس تاریخ کو نہیں ہوتی جس تاریخ کی ان کے حامیوں نے اطلاع دی تھی تو حقیقت یہی ہے کہ ان کی رہائی کا سرے سے کوئی منصوبہ تھا ہی نہیں۔ پھر ان کے حامیوں کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان خود ہی رہائی نہیں چاہتے کیونکہ وہ ’’ اصول پسند‘‘ شخص ہیں جو ’’ کرپٹ‘‘ اور ’’ ظالم‘‘ مخالفین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں چاہتے تو عمرانڈوز اس پر بھی نہ صرف یقین کر لیتے ہیں بلکہ صدقے واری جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ جب کسی چیز کو بار بار دہرایا جاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو تو لوگ اس پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ مانوس لگتا ہے۔ یہ حربہ جرمنی میں نازی حکومت کی وجہ سے مشہور تھا۔ ابھی حال ہی میں کچھ بھارتی نیوز اینکرز نے اعتراف کیا کہ انہوں نے یہ چال اس وقت استعمال کی جب وہ پاکستان کے تباہ ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہوئے پکڑے گئے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جھوٹ کو صرف چند گھنٹے کے دورانیے میں ہی کئی بار دہرایا جبکہ ایسی چال کو کامیاب ہونے کے لئے عام طور پر مہینوں، سالوں سے زیادہ لگ جاتے ہیں۔ تاہم اگر مقصد ایک شام کے لئے ٹی وی ناظرین کی توجہ کا حصول تھا تو یہ حربہ کامیاب ہو گیا۔
غلط معلومات جب سوشل میڈیا پر پھیلتی ہیں تو یہ لوگوں کے دماغوں میں ایکو چیمبرز بناتی ہیں جہاں لوگوں کے سامنے صرف وہی معلومات آتی ہیں جو ان کے تعصب کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان چیمبرز میں لوگ اکثر ایسی معلومات پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے سماجی یا سیاسی قبیلے کے عقائد کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسے بھارتی سوشل میڈیا پر اس وقت دیکھا گیا۔ جب 9مئی کو لاکھوں بھارتیوں کو ایک دیوہیکل ایکو چیمبر نے جھنجھوڑ ڈالا اور ان کا حقائق کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اکثر ایک لاجواب جھوٹ کے سامنے سچائی حقیر لگتی ہے۔ مضبوط جھوٹ جذبات کو متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یعنی جھوٹ سچائی کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش ہوتا ہے جو لوگوں کو باآسانی قائل کر سکتا ہے۔ بھارتی شہریوں سے من گھڑت جھوٹ بولے گئے اور انہیں کسی بلاک بسٹر فلم کی طرح چلایا گیا۔ جھوٹ نے جذبات کو بڑھاوا دیا جس نے زیادہ تر بھارتی شہریوں میں رہ جانے والی تنقیدی سوچ کی کسی بھی صلاحیت کو مکمل طور پر مغلوب کر دیا۔ واضح رہے کہ یہ امر اس وقت اور بھی مضبوط ہوتا ہے جب جھوٹ میں ایک مقبول لیڈر شامل ہوتا ہے جسے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بھارت کے معاملے میں یہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جبکہ پاکستان کے معاملے میں یہ عمران خان ہیں۔ امریکی سیاسی تاریخ دان روتھ بین گھاٹ کے مطابق، ایک بار جب لوگ ایک پاپولسٹ لیڈر کے ساتھ بندھ جاتے ہیں تو وہ کسی ایسے ثبوت کو مسترد کرنے پر مائل ہو سکتے ہیں جو اس کے دعوں سے متصادم ہو یا وہ لیڈر کے پیغامات میں تضادات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ جان سکتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے لیکن وہ پروا نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ عمران خان اپنی پارٹی کے ایکس اکائونٹ سے اکثر ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے اپنے بیانات سے متصادم ہوتی ہیں۔ دلچسپ انداز میں ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ خوفزدہ ہیں کہ اپنے مخالفین کے ساتھ معاہدہ کرنے سے وہ اپنے حامیوں کو ناراض کر دیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے حامی شاید اس ڈیل کو بھی بہادر اور عزت دار چیز میں بدل دیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا مودی کے انتہائی کٹر پرستاروں نے بھی کیا جب انہیں شواہد کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے پاکستان کے خلاف مودی کی چال ناکام ہونے کو ثابت کیا۔ اس پر یقین کرنے کے بجائے وہ اسے ’’ دہشت گردی کے خلاف فتح‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روتھ بین گھاٹ کی نظر میں میڈیا کی خواندگی میں سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے لیکن طاقت کے مقبول ماڈلز کے نقصانات کے حوالے سے تعلیم بھی ضروری ہے جو جھوٹ اور غلط معلومات کے نیٹ ورک کی موجودگی میں لیڈرز کو ( نعوذبااللہ) خدا جیسی حیثیت دے بیٹھتے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان میں پہلے عمران خان اور ہندوستان میں ان دنوں مودی اپنے جھوٹوں کے ساتھ بے نقاب ہو چکے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ مودی کی بے عزتی کا سکور مکمل ہو گیا ہے۔





