ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئے

ذرا سوچئے
تاریخ سے سبق اور اصلاح کی ضرورت
امتیاز احمد شاد
قوموں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ترقی اور زوال ایک مسلسل چکر کی صورت میں آتے ہیں۔ کوئی قوم ایک دن میں عروج پر نہیں پہنچتی اور نہ ہی ایک رات میں زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہوتا ہے جس میں انسانی کردار، معاشرتی اقدار اور ریاستی اداروں کی حالت آہستہ آہستہ بدلتی ہے۔ جب اخلاقیات، انصاف اور انسانی ہمدردی جیسی بنیادی اقدار کمزور پڑ جائیں تو زوال کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ انسان فطری طور پر عقل و شعور رکھتا ہے، لیکن یہ شعور اس وقت کارآمد بنتا ہے جب ماحول اس کی تربیت مثبت انداز میں کرے۔
مغربی فلسفے کے ممتاز مفکر جان لاک کا نظریہ ’’ خالی سلیٹ‘‘ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ انسان کی فطرت بذاتِ خود خالی ہوتی ہے اور معاشرہ اس پر اپنا رنگ چڑھاتا ہے۔ اگر ماحول میں دیانت داری، انصاف اور تعاون ہو تو افراد بھی ان اوصاف کے حامل بن جاتے ہیں۔ لیکن جب ماحول میں بدعنوانی، جبر اور ظلم کا غلبہ ہو تو انسان انہی منفی خصوصیات کو اپنا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرہ بگڑتا ہے تو فرد بھی بگڑ جاتا ہے، اور جب فرد بگڑتا ہے تو معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
قدیم یونان کی تاریخ میں ایتھنز کے زوال کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خوف اور عدم تحفظ انسانی کردار کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ یونانی مورخ تھیوسی ڈیڈیز نے اس دور میں لکھا تھا کہ ’’ جب معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ پیدا ہو جائے، تو انسان بھیڑیے بن جاتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ صرف ایتھنز کے لیے نہیں بلکہ ہر اس معاشرے کے لیے تنبیہ ہے جو داخلی خلفشار کا شکار ہو۔ آج پاکستان میں بھی ایسی ہی کیفیت ہے۔ معاشی بحران، سیاسی عدم اعتماد، اداروں کی کمزوری اور سماجی انتشار نے ایک ایسی فضا پیدا کر دی ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کو حریف بلکہ دشمن سمجھنے لگے ہیں۔
پاکستان میں زوال کے اسباب پوشیدہ نہیں ہیں۔ بدعنوانی، ناانصافی، عوامی حقوق کی پامالی، اقربا پروری اور تاریخ کی غلطیوں کو بار بار دہرانا ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیادی کمزوریاں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ہمیشہ دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔ ہم حکمرانوں کو کوستے ہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ حکمران اسی معاشرے سے جنم لیتے ہیں۔ جیسا کہ فلسفی جان اسٹورٹ مل نے کہا تھا کہ جب تک لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے، تب تک معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔
معاشرتی ترقی کے لیے تین ستون ناگزیر ہیں: انصاف، تعلیم اور اخلاقی قیادت۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کمزور ہو تو ترقی رک جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تینوں ستون متزلزل ہیں۔ انصاف کا نظام سست، مہنگا اور غیر جانبدار ہونے سے قاصر ہے۔ تعلیم کا نظام محض امتحانات اور رٹنے تک محدود ہے، جس میں نہ تو اخلاقی تربیت ہے اور نہ عملی مہارت۔ قیادت کی صورت حال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے، کیونکہ اکثر رہنما ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے پہلا قدم ذاتی کردار کی اصلاح ہے۔ فرد کی اصلاح کے بغیر معاشرتی اصلاح ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے روزمرہ کے معمولات میں ایمانداری، سچائی اور انصاف کو اپنانا ہوگا۔ رشوت دینے اور لینے سے انکار، چھوٹے پیمانے کی بدعنوانیوں سے اجتناب، اور اپنے وعدوں کی پاسداری وہ عادات ہیں جو بڑے پیمانے پر مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اگر ہر فرد اپنے حصے کا فرض ادا کرے تو اجتماعی سطح پر ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل پا سکتا ہے۔
دوسرا قدم تعلیم کا یکساں اور معیاری نظام ہے۔ تعلیم محض ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو فرد کو باشعور، ذمہ دار اور مہذب شہری بناتا ہے۔ ہمیں ایسا تعلیمی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا جو نہ صرف علمی قابلیت پیدا کرے بلکہ طلبہ میں اخلاقی شعور، فکری آزادی اور معاشرتی ذمہ داری کا احساس بھی بیدار کرے۔ اس مقصد کے لیے نصاب میں مثبت قدریں، تنقیدی سوچ اور عملی تربیت شامل کی جانی چاہیے۔
تیسرا اور نہایت اہم قدم انصاف کا مضبوط نظام ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور جانبداری معاشرے کو تباہ کرتی ہے۔ عدلیہ کو آزاد، موثر اور عوام دوست بنانا ضروری ہے۔ ایسا نظام عدل جو ہر شہری کو برابری کے ساتھ انصاف دے، بدعنوانی کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے اور عوام کے دلوں میں اعتماد پیدا کر سکتا ہے۔
قیادت کے حوالے سے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ قوم کی ترقی اس کی قیادت کی ایمانداری اور وعن پر منحصر ہوتی ہے۔ اخلاقی پستی کا شکار قیادت قوم کو کبھی ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکتی۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہو، ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کرے، اور قوم کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
عوامی ذمہ داری کا احساس بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا حکومتی اصلاحات۔ معاشرتی تبدیلی عوامی بیداری کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر فرد کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، قانون کی پاسداری کرنا ہوگی اور اجتماعی فلاح کے لیے قربانی دینا ہوگی۔ معاشی خودکفالت بھی اس تبدیلی کا لازمی جزو ہے۔ ہم بیرونی قرضوں اور امداد پر انحصار کم کر کے ہی اپنی خود مختاری قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے زرعی پیداوار میں اضافہ، صنعتی ترقی اور مقامی وسائل کے موثر استعمال کی ضرورت ہے۔
آخری اور سب سے بنیادی عنصر قومی شعور ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں نے اپنے مقصد کا تعین کیا اور اس کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کی، وہ ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ہمیں اپنی قوم میں یہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ قومی شعور لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتا ہے، انہیں ذاتی مفادات سے بلند کر کے اجتماعی بھلائی کے لیے متحرک کرتا ہے۔
پاکستان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔ اصلاح کا آغاز فرد سے، پھر ادارے سے، اور پھر پورے معاشرے سے ہونا چاہیے۔ ہمیں انصاف، تعلیم اور اخلاقی قیادت کے ستون مضبوط کرنا ہوں گے۔ معاشی خودکفالت، عوامی بیداری اور قومی شعور کے امتزاج سے ہم ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس تبدیلی کے لیے تیار ہیں یا پھر تاریخ کے تماشائی بن کر رہ جائیں گے؟ یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ ہمیں خود کرنا ہے۔ تاریخ ان ہی قوموں کو یاد رکھتی ہے جو مشکل حالات میں کھڑی ہو کر اپنے مستقبل کو بدلنے کا عزم کرتی ہیں۔ پاکستان بھی یہ عزم کر سکتا ہے، بشرطیکہ ہم میں یہ ہمت اور ارادہ پیدا ہو۔

جواب دیں

Back to top button