Column

ملک ریاض: کنگ میکر کے تاج سے نیلامی کے ٹھپے تک

کہا جاتا ہے جو زمین کے خواب بیچتا ہے وہ خود کبھی چین سے زمین پر نہیں سو سکتا ۔ یہ دنیا کا شاید سب سے بڑا تضاد ہے کہ جو زمین کے خواب بیچتا ہے، وہ خود زمین پر سکون سے نہیں سو پاتا۔ پاکستان کی پراپرٹی کی دنیا میں ملک ریاض کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ایک ایسا شخص جس نے ویران کھیتوں اور بنجر زمینوں کو سونے کی کانوں میں بدل دیا، جس نے ہزاروں خاندانوں کو اپنی چھت کا خواب دکھایا اور اُن خوابوں کو سیمنٹ، اینٹ اور شیشے میں ڈھال کر بیچا ۔ مگر اس خوابوں کے شہزادے کی اپنی راتیں اس کمرۂ عدالت میں گزرنے والے دنوں کی فکر میں گزرتی، سیاستدانوں سے ملاقاتوں کی کشمکش اور طاقت کے ایوانوں میں اثرورسوخ کی مسلسل دوڑ میں ۔ یہ کہانی صرف ایک پراپرٹی ٹائیکون کی نہیں، بلکہ اُس کاروباری ماڈل کی ہے جو خواب بیچتا ہے اور بیچنے والے کی نیند چھین لیتا ہے۔

ملک ریاض کو آج کون نہیں جانتا ؟ ایک دور میں ملک ریاض کو کنگ میکر کہا جاتا تھا آج بھی بہت سے ہمارے پیٹی بھائی اس تگ ودو میں ہیں کہ کہیں سے کو ایسا چراغ جلے کہ ملک ریاض کے دن پھر جائیں اور ایک بار پھر سے ملک کے ایوانوں میں ملک ریاض ملک ریاض ہونا شروع ہو جائے۔لیکن موجودہ حکومت اور اداروں کا موقف ایک وقت میں کنگ میکر کہلانے والے کے حوالے سے یکسر تبدیل ہو گیا اور اب ملک کے ایوانوں میں کسی کو کنگ میکر نہیں دیکھنا چاہتے۔

ملک ریاض نے8 فروری سن 1955 کو سیالکوٹ کے ایک کاروباری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ لیکن جب تک انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تب تک انکے والد کے کاروبار میں تسلسل سے نقصان کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ملٹری انجینئرنگ سروس میں کلرک کے طور پر کام شروع کیا اور اکثر اوقات پارٹ ٹائم بطور پینٹر کام کیا۔ بعد میں وہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹھیکیدار بن گئے۔ 1995 میں اپنے والد رریاض حسین کے نام پر حسین گلوبل کے نام سے اپنی تعمیراتی کمپنی قائم کی۔اسی سال ان کی کمپنی نے پاک بحریہ کے خیراتی ٹرسٹ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیا جسکا مقصد پاک بحریہ کے لیے ایک گیٹڈ کمیونٹی کی تعمیر کرنا تھا۔سن 2000 میں ، پاکستان نیوی نے ملک ریاض کے ساتھ اپنا تجارتی معاہدہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی قائم کی جس کا نام سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد بحریہ ٹاؤن رکھا گیا۔ ملک ریاض کا فوج کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد، بحریہ کی بحریہ فاؤنڈیشن نےانہیں قانونی نوٹس جاری کیا کہ وہ اپنی کمپنی کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے بحریہ-میری ٹائم-نیوی جیسے الفاظ کا استعمال بند کرے۔ تاہم 2001 میں، سپریم کورٹ نے ریاض کے حق میں فیصلہ دیا اور انھیں لفظ "بحریہ” کا استعمال جاری رکھنے کی اجازت دی۔ملک ریاض نے اپنی کاروباری سلطنت کو بحریہ ٹاؤن کے برانڈ نام سے پھیلایا ۔ملک ریاض کو اپنے کاروباری طریقوں میں ایک لبرل سمجھا جاتا ہے۔ ایک تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کے مطابق "یہ سوچنا کہ اس کی تعریف مذہبیت اور روایت پرستی سے کی گئی ہے، ایک غلطی ہوگی۔ اس کے ملازمین کے پروفائلز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت سی خواتین کو ملازمت پر رکھتا ہے، خاص طور پر درمیانی اور اعلیٰ انتظامی سطحوں پر، کیونکہ وہ انھیں "محنتی، ہنر مند اور محنتی” سمجھتا ہے۔

یہ تو تھی ایک تمہید جو کہ میں ضرروی سمجھتے ہوئے غیر ضروری طور پر کی ہے۔ ملک ریاض کے ذہن میں بحریہ پراجیکٹ کا آئیڈیا گوگل کے مطابق سن 1997میں آیا میں نے چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا تو اسنے پہلے اسکی تصدیق کی ہاں اسی سال ہوئی تھی پھر میں نے ایک فرضی صحافی کا نام لے کر کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ انکے ذہن میں بحریہ ٹاؤن کا خیال 2004میں آیا تو پہلے تو جی پی ٹی ٹی نے اس فرضی صحافی کی خوب تعریف کی اور اسے ایک کریڈیبل صحافی کہا مجھے لگا شائد میری دانست میں نہ ہو کہ اس نام کا کوئی صحافی پاکستان میں موجود ہو تو میں نے وہ نام گوگل پر ڈالا اور آگے لکھ دیا صحافی تو گوگل نے مجھے اپنی زبان میں کہا جا جا ٹر جا۔ یہ بھی ایک غیر ضروری تمہید تھی۔
اب ایک اور اہم ضروری انفارمیشن پرویز مشرف(مرحوم) کو تمام چیزوں کو پرائیوٹ کرنے کا بڑا شدت سے شوق تھا۔ مشرف دور میں پرائیوٹ چینلز بنے،سرکاری املاک کو پرائیوٹ مالکان کے حوالہ کیا گیا ، پرائیوٹ انڈسٹری لگنا شروع ہوئی۔ جہاں یہ تمام معاملات چل رہے تھے تو مشرف کو کسی عقل مند انسان نے مشورہ دیا کہ پاکستان سے کچھ دو تین مال دار لوگ جو کنشٹریکشن اور دیگر کاروباروں میں لگے ہوئے ہیں انہیں پراپرٹی کے بزنس کی طرف لایا جائے۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن یہ ایک ایسا مشورہ تھا کہ مشرف نے موصوف کا ماتھا چوم لیا ہوگا۔ پھر پاکستان میں پرائیوٹ کالونیاں بننا شروع ہوئی اور اس دور میں سر فہرست تین لوگ آئے جن میں ملک ریاض حسین(بحریہ ٹاؤن)،عبدالعلیم خان(پارک ویو )اور میں عامر محمود(یونین ڈویلپرز)۔ یہ تمام لوگ ؤآج تک پاکستان میں بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔میں اپنی تمام تر توجہ کا مرکز ملک صاحب پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں۔کیونکہ اگر دیگر کی تفصیل شروع کی تو جن دو لوگوں کا ذکر کروں تو دونوں آج کے دور میں کافی پاورفل مانے جاتے ہیں۔
خیر ملک ریاض پر واپس آتے ہیں ملک ریاض کی گڈی چڑھتی گئی اور ایسا سوچا اور سمجھا جانے لگا کہ کون ہوگا جو ملک ریاض پر کبھی ہاتھ ڈالے گا۔ملک ریاض پر بے شمار الزامات لگے ان پر حکومتیں بنانے حکومتوں کو نوازنے کے بہت سارے الزامات تھے اور پی پی پی حکومت کو چندہ دینے کے عوض سرکاری کنٹریکٹس حاصل کرنے کے الزام لگائے گئے لیکن انہوں نے تمام تر سرکاری کاغذات دکھا کر اپنی جان بخشی کروا لی ۔پھر عمران دور میں انکی اور عمران خان کی بیگم کے سکینڈل سامنے آئے کہ بیگم عمران نے ملک صاحب سے کافی کچھ حاصل کیا تھا جس میں ایک ڈائمنڈ کا سیٹ، انگھوٹیاں اور نقدی شامل تھی جو فرح گوگی کےذریعہ بشریٰ بی بی تک پہنچی۔صرف حکومتیں ہی نہیں ملک صاحب کو تمام طاقت ور ادارے سنبھالنے کا شوق تھا جسکا بعد میں خود بھی اعلان کر دیتے تھے جیسے انہوں نے سال 2012میں انہوں نے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کے بیٹے ارسلان افتخار پر رشوت کا لزام لگایا اور اپنی پاور کے بارے میں بتایا۔عدلیہ اور حکومتیں ہی نہیں بلکہ ملک ریاض نے اپنا اثر میڈیاپر بھی رکھا دنیا نیوز کے خصوصی پروگرام جو کہ ریکارڈ کیا جارہا میں میزبان مہر بخاری اور مبشر لقمان تھے اور مہمان تھے ملک ریاض حسین انٹر ویو کے لیے بھرپور تیاریاں کی گئیں لیکن انٹرویو سے پہلے اینکر مبشر لقمان کو ایک فون آتا ہے اور وہ کہتے سنت جاتے ہیں کہ نہیں نہیں ملک صاحب کو بالکل تنگ نہیں کیا جائے گا اسی طرح کی بات مہر بخاری سے بھی کروائی جاتی ہے۔میڈیا پر ملک ریاض کے خلاف خبر چلانا جرم سمجھا جاتا تھا کیونکہ اشتہارات کی مد میں کروڑوں لیے جاتے تھے لیکن کہتے ہیں ہر عروج جو زوال ہے۔سال 2022 تک تو یہ بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھالیکن پھر ایک دم سے وقت بدل گیا،حالات بدل گئے۔موجودہ فیلڈ مارشل اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی سید عاصم منیر نے اس وقت کے پرائم منسٹر عمران خان کو القادر ٹرسٹ کے نام سے ایک فائل پکڑائی جس میں ملک ریاض حسین کے ذریعہ حسین نواز کو ٹریپ کروانے کی مکمل رپورٹ تھی اور اسکے مرکزی کردار شہزاد اکبر تھا جو تب کا گیا اب تک نہ لوٹاتھا۔ اس کیس کا پس منظر سب کو معلوم ہے کہ کیسے کابینہ کی منظوری سے یہ پیسے پاکستان آئے اور عمران خان نے اس پر اچھا بچہ بن کر دکھا دیا کہ مجھے گمراہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی واقعہ تھا جسکے بعد جو عمران اور کمپنی کو اقتدار میں لائے تھے انہیں اندازہ ہوا کہ غلطی ہو گئی ہے اور میاں صاحب سے ڈیل کی راہیں ہموار کی گئیں اور انہیں لندن بھیج دیا گیا۔
آئی ایس آئی کی رپورٹ پر ایکشن نہ ہونا اور القادر ٹرسٹ کیس کا 190ملین پاؤنڈ کیس بننا ہی تھا کہ عمران خان کو 9مئی 2023کو گرفتار کر لیا گیااور جنوری 2025میں اس کیس کا فیصلہ آیا ۔ تب سے ملک ریاض کی فائلیں تیار تھی اور جنوری سے اگست تک بہت لوگوں نے کوشش کی کہ کوئی ڈیل ہو جائے لیکن موجودہ حکومت اور ادارے کسی ڈیل کے لیے تیار نہیں یہی وجہ بنی کہ اب بحریہ ٹاؤن کی مرحلہ وار نیلامی کا سلسلہ جاری ہے۔
ملک ریاض کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ پاکستان میں خواب بیچنے والا ہمیشہ بیداری کے عذاب میں جیتا ہے۔ آج وہ شخص جس کے فون پر وزرائے اعظم، جرنیل اور جج حضرات گھنٹوں انتظار کرتے تھے، خود کسی کال کا منتظر ہے۔ طاقت کے ایوان جن میں کبھی اس کا قہقہہ گونجتا تھا، آج اس کے ذکر پر خاموش ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے بلند و بالا دروازے آج بھی کھڑے ہیں مگر ان کے پیچھے کھڑا بادشاہ اپنی اگلی چال کے لیے بس مہرے ڈھونڈ رہا ہے۔ زمین کے سوداگر کی یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ زمین اس کی مٹھی میں نہیں رہتی۔ aj کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کو نشانہ بنانے والی مہم کے پیچھےکون ہے ہم جانتے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں ایسا کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ کسے پہنچے گا۔

جواب دیں

Back to top button