Column

نمل ڈیم: برطانوی ورثہ زوال کے دہانے پر

نمل ڈیم: برطانوی ورثہ زوال کے دہانے پر

عابد ایو ب ایوان

پاکستان کے خطہ پوٹھوہار کی سنگلاخ پہاڑیوں کے دامن میں، شہر اقتدار سے کراچی جانے والی ہائی وے کے کنارے واقع نمل ڈیم صرف ایک آبی ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ برطانوی دور حکومت کی انجینئرنگ کا ایک نادر شاہکار ہے۔ 1913ء میں تعمیر ہونے والا یہ ڈیم اُس وقت کے جدید ترین انجینئرنگ اصولوں کے تحت بنایا گیا تھا، جس کا مقصد نہ صرف مقامی آبادی کو پانی فراہم کرنا تھا بلکہ زراعت کو فروغ دینا اور اردگرد کے علاقوں کی معیشت کو سہارا دینا بھی تھا۔ برطانوی راج کے دوران نمل ڈیم کو سالٹ رینج ( نمک کے پہاڑیوں) کے دامن میں اس لیے تعمیر کیا گیا کہ یہاں سے پانی کو نمل جھیل میں جمع کر کے قریبی دیہاتوں اور قصبوں کو سیراب کیا جا سکے۔ اس زمانے میں یہ منصوبہ اس خطے میں آبی وسائل کے بہترین انتظام کی علامت تھا۔ نمل جھیل، جو اس ڈیم کا بنیادی حصہ ہے، قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کا بھی ایک مرکز بن گئی، جہاں مچھلیاں، آبی پرندے اور مقامی نباتات پروان چڑھتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ تاریخی ورثہ حکومتی عدم توجہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ گیا۔ نمل جھیل میں گاد ( سلٹ) بھرنے کے باعث ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی آ گئی ہے۔ اطراف میں غیر قانونی تعمیرات اور زرعی زمینوں میں بے تحاشہ پانی کے استعمال نے بھی ڈیم کی افادیت کو کم کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے بارش کے پیٹرن کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں پانی کی آمد مزید گھٹ گئی ہے۔
مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ڈیم کی انجینئرنگ ساخت پر وقت کے اثرات واضح نظر آ رہے ہیں۔ دراڑیں، کمزور پشتے اور ناقص مرمت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ تاریخی ورثہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتا ہے۔
نمل ڈیم صرف پانی کا ذخیرہ نہیں، بلکہ مقامی زراعت، مچھلی کی افزائش اور سیاحت کا بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ جب پانی کی فراہمی کم ہوئی تو مقامی کسانوں کی پیداوار متاثر ہوئی، روزگار کے مواقع کم ہوئے اور نمل جھیل پر آنے والے سیاحوں کی تعداد بھی گھٹ گئی۔ اس سے نہ صرف مقامی معیشت بلکہ ثقافتی ورثے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بدقسمتی سے نمل ڈیم کو نہ تو محکمہ آبپاشی کی ترجیحات میں وہ مقام ملا جو اس کے تاریخی اور عملی کردار کے لحاظ سے ملنا چاہیے تھا، اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے اسے تحفظ فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔
1، بحالی منصوبہ: ماہر انجینئرز کی مدد سے ڈیم کی ساخت کی مرمت اور مضبوطی کی جائے۔
2، گاد نکاسی مہم: جھیل میں سے سلٹ نکال کر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بحال کی جائے۔
3، قانونی تحفظ: نمل ڈیم کو قومی ورثہ قرار دے کر اس کی غیر قانونی تعمیرات اور ماحولیاتی نقصان سے حفاظت کی جائے۔
4، سیاحت کا فروغ: نمل جھیل کو ایک محفوظ سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دی جائے، جس سے مقامی معیشت بہتر ہو۔
5، موسمیاتی حکمت عملی: بارش کے پانی کے بہتر ذخیرہ اور ماحولیاتی توازن کے لیے شجرکاری اور واٹر مینجمنٹ پالیسی اپنائی جائے۔
نمل ڈیم برطانوی دور حکومت کا ایک قیمتی ورثہ ہے، جو آج اپنی بقا کی دہائی دے رہا ہے۔ اگر اربابِ اختیار نے بروقت نوٹس نہ لیا تو ہم نہ صرف ایک تاریخی یادگار سے محروم ہو جائیں گے بلکہ اس کے ساتھ جڑے قدرتی اور معاشی فوائد بھی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس ورثے کو صرف کاغذی دعوئوں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے محفوظ بنائیں۔

جواب دیں

Back to top button