فاٹا کی واپسی کیوں؟

فاٹا کی واپسی کیوں؟
امتیاز عاصی
کبھی قبائلی علاقہ جات وفاق کے زیر انتظام ہوتے تھے، جس میں آٹھ ارکان اسمبلی اور آٹھ ہی سینیٹر قبائلی علاقہ جات کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کرتے تھے۔ میرے عزیز دوست سینیٹر حاجی ملک فرید اللہ خان وزیر مرحوم جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ان ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کے قائد تھے۔ صدر مملکت غلام اسحاق خان سے ملاقات کے لئے تمام ارکان اسمبلی و سینیٹ انہی کی قیادت میں صدر سے ملاقات کرکے قبائلی علاقہ جا ت کے مسائل پر بات چیت کرتے تھے۔ قبائلی علاقہ جات کے ارکان کی اکثریت کم تعلیم یافتہ یا یوں کہیں ناخواندہ تھی۔ ملک فرید اللہ خان سے میر ا بہت قریبی تعلق تھا، میں اکثر فارغ اوقات میں انہی ہاں غازی علم دین ہاسٹل میں جایا کرتا تھا۔ مسلم لیگ نون کے 2013 ء کے دور میں قریبا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے فاٹا کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس مقصد کے لئے وزیراعظم نواز شریف نے سینیٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی، جس کی سفارشات کی روشنی میں فاٹا کو ختم کرکے قبائلی علاقہ جات کو صوبہ کے پی کے ضم کر دیا گیا۔ قبائلی علاقہ جات کو کے پی کے میں ضم کرنے کے بعد وہاں تعلیم و ترقی کی راہیں کھل گئیں اور صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں ان علاقوں کے آئے جانے کے بعد انگریز دور کے فاٹا ریگولیشنز کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ دیکھا جائے تو فاٹا کے انضمام کا وہاں کے رہنے والوں کو فائدہ ہی ہوا جہاں سڑکیں ناپید تھیں نہ اسکول اور کالج تھے، وہاں تعلیمی اداروں کا قیام عمل لایا گیا تاکہ وہاں کے رہنے والوں کو ملک کے تمام شہریوں کے برابر لایا جا سکے۔ درحقیقت فاٹا میں رہتے ہوئے قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کی وہاں بادشاہت قائم تھی، اسلحہ اور منشیات کی فراوانی اور دیگر امور کے سلسلے میں انہیں مکمل آزادی تھی، لیکن فاٹا کے ختم ہونے کے بعد ان کی یہ بادشاہت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ ظاہر ہے قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا، اسمگلنگ عام تھی، نہ کوئی روک ٹوک بلکہ جو چاہیں کر گزرتے تھے۔ فاٹا کے بیشتر علاقے افغانستان سے بہت قریب ہیں، جیسا کہ باجوڑ کے چند کلومیٹر پہاڑ کے اس پار افغانستان کا صوبہ کنڑ ہے، جہاں سے افغانستان کے لوگوں کی آمدورفت آسانی سے ہو سکتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جب کسی ریاست کے رہنے والے قانون کو ہاتھ میں لیں تو ریاست کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ سوال ہے کیا سابقہ قبائلی علاقہ جات کے رہنے والوں کو پاکستان کے دیگر عوام کے مقابلے میں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے؟، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وہاں آپریشن کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی ہے ؟، اگر وہاں کے لوگ پرامن طریقہ سے رہیں اور قانون کا احترام کریں تو کوئی وجہ نہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سے چھیڑ چھاڑ کریں۔ فاٹا کے خاتمے کے بعد وہاں کے بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے افغانستان چلے گئے اور وہاں جا کر افغان طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ ریاست پاکستان میں جتنے دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں، ان کے تانے بانے افغانستان اور بھارت سے ملتے ہیں، تو ان حالات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے تماشائی بنے رہیں یا انہیں ملک کا دفاع کرنا چاہیے؟۔ کے پی کے ساتھ سابقہ فاٹا کی شمولیت کے کئی سال بعد تحریک طالبان کو سابقہ فاٹا کی پرانی پوزیشن بحال کرنے کا خیال آیا ہے، جو ملک کے ساتھ کسی بڑی سازش کا حصہ ہے۔ سابقہ فاٹا کے پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کی سول سروس کا باقاعدہ حصہ ہوتے ہیں، انہیں وفاقی اور صوبائی حکومت میں ملازمتیں دی جاتی ہیں، غرضیکہ کے انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو کے پی کے عوام کو حاصل ہیں۔ سوال ہے جب سابقہ فاٹا وفاق کا حصہ تھا تو وہاں کون سا عہد فاروقی والا نظام رائج تھا، جس سے وہاں کے لوگ محروم کر دیئے گئے ہیں؟۔ پاکستان کے آئین میں جو نظام دیا گیا ہے وہ مملکت میں رائج ہے۔ بلاشبہ کالعدم تحریک طالبان کو افغان طالبان کی بھرپور حمایت حاصل ہے، مملکت میں جو دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان کو ان سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ روز ایک اردو معاصر میں یہ خبر پڑھ کر دکھ ہوا کالعدم تحریک طالبان نے باجوڑ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا ریاست پاکستان اتنی کمزور ہو چکی ہے جو کالعدم تحریک طالبان کو باجوڑ چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتی بالکل نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہمیشہ سے کوشش رہی تمام امور افہام و تفہم سے حل کر لئے جائیں تو اسی میں سب کی بہتری ہے۔ سوال تو یہ ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آپریشن کیوں نہ کرنے دیا جائے، جب کسی کا جی چاہی دھماکے کرتا پھرے اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلے۔ باجوڑ میں دہشت گردی کے کتنے واقعات ہو چکے ہیں، بے شمار جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سوال ہے جب سابقہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کر لیا گیا ہے جس کے بعد سابق فاٹا کی آزاد حیثیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب وہاں انگریز دور کے فاٹا ریگولیشن پر عمل درآمد کیسے ہو سکتا ہے۔ سابق قبائلی علاقہ جات کے عوام کو بھی چاہیے وہ پاکستان کے شہری کی طرح اپنے اپنے علاقوں میں رہنے کی کوشش کریں۔ ریاست کے ساتھ ٹکرائو سے کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا، بلکہ الٹا عوام کو نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ سابقہ فاٹا کے لوگوں کو اپنے صوبے سے وہ مراعات لینی چاہئیں جو کے پی کے دوسرے علاقوں کے عوام کو حاصل ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقہ جات کے عوام کو بھی چاہیے وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے روز مرہ کے امور کی انجام دہی کریں۔ ہمارے خیال میں دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کے عوام اپنی ریاست سے ہٹ کر علیحدہ قوانین پر عمل درآمد کریں۔ سابقہ فاٹا کے رہنے والوں کو حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے، نہ کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین سے کسی معاملے پر مزاحمت کرنا ترک کر دیں، لہذا اسی میں سب کی بھلائی ہے، ریاست کے ساتھ ٹکرائو کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔







