شکر ہے میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا
شکر ہے میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا
صفدر علی حیدری
شکر کیا ہے ؟ کسی نعمت کے ملنے کا اعتراف و اظہار کرنا، اور اسے خوشنودی خدا کے لیے استعمال کرنا۔
شکر کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کی معصیت میں صرف نہ کرے ۔
راغب اصفہانی کے مطابق، شکر کسی نعمت کو پہچاننا اور اسے ظاہر کرنا ہے۔
شکر کی ضد ناشکری ہے، جو نعمت کو چھپانا اور بھول جانا ہے۔
شکر دراصل اظہار احسان مندی ہے اور بندگی کا ایک وہ حسین ترین مظہر ہے۔ محسن کا احسان ماننا شرف انسانیت ہے اور محسن کشی انسانیت کی پست ترین حالت ۔
شکر کے حوالے سے میرا کچھ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
سو قرآن و حدیث اور اقوال کی روشنی میں شکر کی پرتیں کھولتے ہیں۔
ارشاد قدرت ہے’’ میرے رب کا فضل ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے ‘‘، ایک اور جگہ خدا نے اپنے بندے کا احساس جگایا ہے ’’ تم مجھ کو یاد کرو میں بھی تم کو یاد کروں گا، میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو‘‘، نیز ’’ اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے ‘‘ اور ’’ بلکہ تُو اللہ کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا ‘‘۔
کتب احادیث کا دامن شکر کی اہمیت سے لبریز ہے’’ کھانے پر شکر کرنے والا درجہ میں صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے‘‘۔ ’’ قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جائو گے‘‘، ’’ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا گویا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ‘‘۔ ایک حدیث کے بموجب دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی، اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے۔
حضرت دائودٌ نے عرض کیا:’’ اے باری تعالیٰ! میں تمہارا کیسے شکر ادا کروں؟ جب کہ میرا شکر ادا کرنا بھی تمہاری ایک عنایت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اب تو نے میرا شکر ادا کیا ہے‘‘۔
امام حسنؓ بن علیؓ نے خانہ کعبہ کے رکن سے چمٹ کر کہا : ’’ اے اللہ! تو نے مجھ پر انعام کیا مگر تو نے مجھے شاکر نہ پایا، تو نے مجھے ( آزمائش میں) مبتلا کیا مگر مجھی صابر نہ پایا۔ میرے شکر ادا نہ کرنے کے باوجود تو نے مجھ سے اپنی عنایات کو روک نہیں لیا اور نہ ہی میری بے صبری کی وجہ سے تو نے مصیبت کو دائم رکھا۔ یا الٰہی! ایک کریم سے کرم کے سوا کیا ظاہر ہو گا‘‘۔
ایک عارف کا قول ہے ’’ قیامت کے دن نہ تو فقر کا وزن ہو گا اور نہ ہی غناء کا ، وہاں صرف صبر و شکر کا وزن ہو گا اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے شکر اور صبر کیا‘‘۔
بزرگ کہتے ہیں ’’ اس کو رضا نصیب نہیں ہوتی جو صبر نہیں کرتا اور اس کو کمال حاصل نہیں ہوتا جو شکر نہیں کرتا‘‘۔ گویا ’’ جو شخص کسی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا تو وہ اس نعمت کے زوال کو دعوت دے رہا ہوتا ہے‘‘۔
’’ حقیقتِ شکر ، اس امر کا جان جانا ہے کہ میں کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘۔
حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا: ’’ نعمت کا چرچا کرنا بھی ایک طرح سے نعمت کا شکر ادا کرنا ہے‘‘
جناب شبلی کے بقول : ’’ احسان کرنے والے کو نگاہ میں رکھنا شکر ہے، نہ کہ احسان کو نگاہوں میں رکھنا ‘‘۔
حضرت جنید بغدادی کہتے ہیں :’’ حقیقت میں شکر یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو نعمت کا اہل نہ پائے‘‘۔
امام قشیری کا بیان ہے’’ جب تو جزا دینے سے قاصر ہو تو اپنی زبان کے ساتھ شکر گزاری میں کثرت کر‘‘، نیز ’’ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ تو لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالے اور کان کا شکر یہ ہے کہ جو عیب کی بات سنے اس پر پردہ ڈالے‘‘۔ شکرگزاری کی تین اہم چیزیں ہیں:
اعتراف: اللہ کی نعمتوں کا دل سے اعتراف کرنا۔
اظہار: زبان اور عمل سے اللہ کی تعریف کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا۔
استعمال: نعمتوں کو اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں استعمال کرنا۔
شکر گزاری نہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے بلکہ اپنے محسنوں کا بھی حق ہے۔ والدین، اساتذہ، دوست اور دیگر لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بھی شکر گزاری کا حصہ ہے۔
کبھی کہا گیا ’’ خوشحالی میں شکر کرنی والا شاکر ہے جبکہ مصیبت میں شکر کرنے والا شکور ہے ‘‘۔
بندہ جب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم و اِحسان کا مشاہدہ کرتا ہے تو شکر میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور رب کی محبت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ مقام بہت برتر ہے۔
سرکار ختمی مرتبتؐ فرماتے ہیں ’’ جسے چار چیزیں مل گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی: شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور اپنے آپ اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی‘‘۔
شکر ادا کرنا رِضائے الٰہی اور جنت میں لے جانے والا کام ہے، جبکہ ناشکری رب کی ناراضی کا سبب ہے۔
ارشاد قدرت ہوتا ہے ’’ اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جائو اور ایمان لے آئو ، اور اللہ ( ہر حق کا) قدر شناس ہے ( ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے‘‘۔
رسول خاتمؐ کے پاس جب کوئی مسرت افزا خبر یا خوشخبری آتی تو آپؐ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنے کی غرض سے سجدہ ریز ہو جاتے۔
مولا علیؓ نے شکر کو ایمان وتقویٰ کی نشانی، امتحان و آزمائش کا سبب، مال کی زینت، باعث فزونی نعمتاور نعمتیں جاری و ساری رہنے کا سبب قرار دیا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اتنی کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔
’’ اور اُس نے دی تمہیں ہر چیز، جو تم نے مانگی اُس سے اور اگر تم شمار کرو، اللہ کی نعمت کو ( تو) نہیں شمار کر سکو گے اُسے، بے شک انسان یقینا بڑا ظالم ، بہت ناشکرا ہے‘‘۔
جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ سے کوئی چیز طلب کرتا ہے تو جہاں اسے وہ چیز ملتی ہے ، وہیں اس کو بن مانگے بھی شمار نعمتیں عطا ہوتی ہیں۔ پھر بھی اس کا ناشکرا پن برقرار رہتا ہے۔
شیخ سعدیؒ نے بجا فرمایا ہے کہ دانت اللہ کی نعمتیں کھا کھا کر گھس گئے، لیکن زبان نے شکر کا کلمہ پڑھنا نہیں سیکھا۔
سورہ رحمان گواہ ہے کہ جھٹلانا انسان کی فطرت ثانیہ ہے ( حالاں کہ شکر کرنا فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے )۔
انسان کو کچھ نہ ملے تو واویلا کرتا ہے۔ شور مچتا ہے، آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے لیکن اسے سب کچھ بھی دے دیا جائے تو تذکرہ نہیں کرتا ۔ شکر نہیں بجا لاتا۔
کسی فقیر کا شکوہ کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔ اس کو کہنا چاہیے ’’ دے دے تو اس کا بھلا اور روک لے تو اس کا بھلا ‘‘، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ انسانوں کی ایک غالب اکثریت اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتی رہتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے باوجود ان نعمتوں کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے کرنے کی بجائے اپنے علم و ہنر کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ زبان سے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں اور ہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے لوگ اللہ کی نعمتوں ضائع کر کے یا ان کا غلط استعمال کرکے رب کی ناشکری کرتے ہیں۔
’’ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور ہے شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا‘‘۔
شکر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان کے قلب اور فکر میں یہ بات راسخ ہو کہ اس کے پاس جو نعمتیں بھی موجود ہیں ، درحقیقت وہ اللہ ہی کی عطا ہیں اور ان نعمتوں کا حصول جبھی ممکن ہوا ، جب اللہ نے اس پر اپنا کرم فرمایا۔
قلبی اور فکری طور پر شکر کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو زبان سے بھی ’’ الحمدللہ‘‘ کے الفاظ جاری رکھنے چاہئیں اور نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اپنے شاکر بندوں کو خوش خبری سناتا ہے’’ اور جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھا بدلہ عطا کرے گا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ شکر ہی ایک ایسا عمل ہے ، جس کو انسان اپنی نسبت سے اعلیٰ ترین صورت میں کر سکتا ہے۔ کیوں کہ شکر کا تعلق دل اور دماغ سے ہے اور جس چیز کا تعلق دل اور دماغ سے ہو ، اُس کے بارے میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اُس کو کامل ترین صورت میں ادا کر سکے۔
اگر انسان غور کرے تو بے ساختہ کہہ اٹھے ’’ میں خدا کا کتنا مقروض ہوں‘‘، لیکن انسان کم ہی غور کرتا ہے جبھی تو رب نے شکوہ کیا ہے کہ اس کے بندوں نے اس کی ویسی قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی
ایمان داری سے بتائیے کیا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں ’’ شکر ہے میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا‘‘۔
صفدر علی حیدری







