بغاوت کا قانون اور جمہوریت

بغاوت کا قانون اور جمہوریت
تجمل حسین ہاشمی
سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی جماعتیں جب حکومت میں نہیں ہوتیں تو بڑے جوش و خروش کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں، عوامی مسائل اُٹھاتی ہیں اور قانونی سقم کی نشاندہی کرتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہی جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہیں، تنقید کی وہ تیز دھار دھندلا جاتی ہے اور خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا جاتا ہے۔ مصلحت اور مفاہمت کے داعی بن جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ملک کی تقریباً ہر بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعت کا وتیرہ رہا ہے ۔
ملکی معیشت کی تباہ حالی کا الزام اگرچہ مختلف حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتی رہتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ معاشی بگاڑ کی اصل ذمہ دار ہمیشہ حکومتِ وقت کی پالیسی ہی ہوتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں چند بنیادی اقدامات کو تسلسل کے ساتھ اپنانے کا عزم کر لیں تو نہ صرف معیشت میں بہتری آ سکتی ہے بلکہ سیاسی اور سماجی افراتفری کی فضا بھی کسی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مخالفین کو اکثر ’’ غدار‘‘ اور ناکام پالیسی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ غداری جیسے الزامات کا سلسلہ بی بی فاطمہ جناح سے شروع ہوا اور آج تک ختم نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط سیاسی کش مکش بھی انہی الزامات کے گرد گھومتی رہی، اگرچہ عمران خان کی سیاست کے ابھرنے کے بعد کسی حد تک بدل گئی ، مگر غداری جیسے الزامات کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔
آج بھی جب اپوزیشن حکومت مخالف جلسے، عوامی ریلیاں یا دھواں دھار تقریریں کرتی ہے تو اس کے فوراً بعد گرفتاریاں اور پھر غداری کے مقدمات درج ہونا معمول بن جاتے ہیں ۔ یہی وہ موقع ہے جب پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124۔ اے جسے بغاوت کا قانون کہا جاتا ہے، حکومتوں کا ایک اہم ہتھیار بن جاتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت وہ تمام بیانات، تحریریں یا اشارے جو حکومت یا ریاست کے خلاف نفرت یا بغاوت پر اُکسائیں، سنگین جرم قرار پاتے ہیں، جن کی سزا عمر قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ ایسے قانون کے نافذ کیلئے ایک اہم اور مکمل تفتیش انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کئی مرتبہ کہ چکی ہے۔
یہ قانون دراصل برطانوی دور کا تحفہ ہے، جسے 1860ء میں تعزیراتِ ہند کے تحت متعارف کرایا گیا تھا تاکہ تحریکِ آزادی کی مزاحمتی آوازوں کو دبایا جا سکے۔ انڈیا کے گنگا دھر تلک برطانیہ راج کے مخالف تھے۔ غیر ملک تسلط پر تنقید کرتے تھے۔ تین مرتبہ ان پر 124اے کے تحت مقدمے درج ہوئے۔ دو مرتبہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے عدالتوں میں ان کا دفاع کیا ۔ 1909ء میں قابل اعترض تقریر کرنے کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنا کر ان کو برما جیل میں قید کیا گیا۔ افسوس کہ آزادی کے بعد بھی یہ نوآبادیاتی ہتھیار جمہوری ملکوں میں جوں کا توں برقرار رہا اور مختلف حکومتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ صرف پاکستان ہی نہیں، بھارت میں بھی اس قانون کو سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ نریندر مودی کی حکومت نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف اُٹھنے والی بیشتر آوازوں کو ریاست دشمنی قرار دیتے ہوئے سیکڑوں مقدمات دفعہ 124۔ اے کے تحت درج کیے۔ یوں، بغاوت کا قانون ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جو جمہوریت میں اختلافِ رائے کی روح کو گھونٹ دیتا ہے۔
جب تک پارلیمنٹ سنجیدگی سے اس جیسے قانون میں اصلاح یا اس کی منسوخی پر غور نہیں کرتی، یہ خطرہ موجود رہے گا کہ کل کے اپوزیشن رہنما، اقتدار میں آنے کے بعد، آج کے الزامات کو کل کے ہتھیار میں بدل دیں گے۔ برطانیہ جیسے ملک میں 124۔ اے کے قانون کو ختم کیا جا چکا ہے۔
معاشرہ میں سماجی شعور اور اسلامی تعلیمات کی بیداری کی ضرورت ہے، کسی بھی شہری کیلئے معمولی جرم کی سزا بھی قابل برداشت نہیں ہو سکتی۔ عوام آئین کے طبع ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں نے سخت سے سخت قانون سازی پر ساری توجہ مذکور کی ہوئی ہے، لیکن بنیادی انسانی حقوق کی پرورش کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ قوم کو جھوٹ کے پیچھے لگا کر اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ان کے اولین مقاصد ہیں، لیکن عوامی سہولیات کیلئے ان کے کرداروں پر کئی سوال ہیں، حکومت اتنی بے خبری میں ہے، اربوں روپے کے فراڈ منظر عام ہیں۔







